بغداد، 30 اگست (انڈیا نیرٹیو)
عراق کے بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کی پیر کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے اعلان کے بعد حامیوں میں ناراضگی برپا ہے۔بغداد میں حالات بے قابو ہو گئے ہیں۔ حامیوں اور دیگر نے صدارتی محل اور دیگر سرکاری دفاتر پر دھاوا بول دیا۔سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں کم از کم 20 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران ملک میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
بگڑتے ہوئے حالات کے پیش نظر پڑوسی ملک ایران نے عراق کے لیے اپنی تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں اور سرحد پر تمام داخلی دروازے بند کر دیے ہیں۔ عراق کی تازہ ترین صورتحال پر اقوام متحدہ کے سربراہ اینٹونیو گوٹیریس نے عوام سے امن کی اپیل کی ہے۔
الصدر کے گروپ نے بھی پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کے مستعفی ہونے کے اعلان نے ان کے حامیوں کو ناراض کر دیا ہے۔ یہ لوگ سرکاری املاک کو نشانہ بنا رہے ہیں فوج نے بغداد میں مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے کرفیو کا اعلان کیا۔ ہجوم تشدد پر آمادہ ہے۔ لوگ توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔
ناراض حامی صدراتی محل میں داخل
ادھر شیعہ عالم الصدر نے تشدد اور ہتھیاروں کا استعمال بند ہونے تک بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی این اے اور سرکاری ٹی وی نے پیر کو دیر گئے الصدر کا اعلان نشر کیا۔ تاہم الصدر کے دفتر سے فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں ہو ئی ہے۔
بگڑتی ہوئی حالت کے بعد عراق میں کویتی سفارت خانے نے اپنے شہریوں سے ملک چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔ سفارتخانے نے عراق کا سفر کرنے کے خواہشمند افراد پر زور دیا ہے کہ وہ حریف شیعہ گروہوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد اپنے منصوبے ملتوی کر دیں۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں ہوئے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے عراقی حکومت کو تعطل کا سامنا ہے۔
الصدر کی جماعت نے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ اکثریت سے محروم رہی۔ انہوں نے حکومت سازی کے لیے ایران نواز شیعہ حریفوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔ جولائی میں الصدر کے حامی اپنے حریف کو حکومت بنانے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ میں گھس آئے۔ اس کے بعد سے وہ پارلیمنٹ ہاوٓس کے باہر دھرنے پر بیٹھے ہیں۔