Urdu News

رکن جماعت اسلامی پاکستان کا جبری شادی کروانے کا ارادہ

عدنان خان کاکڑ

 جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اور ایم ایم اے کے ٹکٹ پر ممبر سندھ اسمبلی منتخب ہونے والے عبدالرشید نے ایک پرائیویٹ ممبر بل جمع کروایا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ صوبے بھر میں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے تمام بالغ لڑکے لڑکیوں کی شادی کو لازمی قرار دیا جائے اور اٹھارہ سال کی عمر تک نوجوانوں کی شادی نہ کروانے والے والدین کو مبلغ پان سو روپلی جرمانہ ہو گا جو وہ ڈی سی صاحب بہادر کو جمع کروائیں گے۔ اس سے پہلے انہیں ٹھوس وجوہات بیان کرنے کا موقع دیا جائے گا کہ کیوں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے، یعنی یہ کوئی طبی مسئلہ تھا یا بدنیتی کا۔ عبدالرشید صاحب کا خیال ہے کہ اس جبری شادی سے معاشرتی خرابیوں، بچوں کے ساتھ ریپ اور غیراخلاقی سرگرمیوں وغیرہ کے بڑھتے رجحانات کا خاتمہ ہو گا۔

سب سے پہلے تو ہم عبدالرشید صاحب کے جذبے کی تعریف کرتے ہیں اور امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو بھی اس بات پر قائل نہیں کر پائے کہ شادی کرنے سے لوگوں میں سیکس سے بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ غالباً جماعت کے سینئر لوگوں کا تجربہ مختلف ہو گا اور وہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ شادی کرنے کے بعد بہت سے لوگ اپنی ذاتی اہلیہ سے تو کوسوں دور بھاگتے ہیں لیکن دیگر خواتین میں شدید کشش محسوس کرتے ہیں کہ خدا جانے کب امت کی سربلندی کی خاطر دوسری تیسری چوتھی شادی اسی روح افزا سے کرنی پڑ جائے۔

ظاہر ہے کہ یہ صالحین کے متعلق بیان ہے کہ شادی کرنے کے بعد وہ بدی کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ غنڈے بدمعاش تو ایسے نہیں ہوتے۔ لاہور سیالکوٹ موٹر وے ریپ کا واقعہ ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس کے مجرمان شادی شدہ ہونے کے باوجود بدترین ریپ کے مرتکب ہوئے تھے۔ ان پر شادی نے وہ اثر کیوں نہیں ڈالا جو عبدالرشید صاحب کے خیال میں ہونا چاہیے تھا؟

 

ہمیں امید ہے کہ جماعت اسلامی کا ممبر پارلیمان بننے سے پہلے عبدالرشید صاحب نے بطور طالب علم اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے بے حیائی کے تدارک کے لیے لٹھ اٹھایا ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ لٹھ یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی اداروں میں اٹھایا ہو گا اور جہاں کوئی لڑکا کسی لڑکی سے بات کرتا دکھائی دیتا ہو گا، بے حیائی کے تدارک کے لیے اس پر ٹوٹ پڑتے ہوں گے۔ اب اٹھارہ برس کی عمر ایف اے کے طالب علم کی ہوتی ہے، یعنی یونیورسٹی کے طالب علم کی عمر اس سے کئی برس زیادہ ہو گی۔ اب اگر نوجوان شادی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو رشید صاحب انہیں ڈنڈا مارتے ہیں اور نہ کریں تو وہ ان کے والدین کو جرمانہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔

اچھا اب ادھر ایک مسئلہ اور ہے۔ بارہویں جماعت کا طالب علم اب اپنے مستقبل کی پروفیشنل فیلڈ کے لیے تیاری کرتا ہے۔ وہ ڈاکٹر، انجینیئر، حکیم، ہومیوپیتھ، فوجی، بزنس مین وغیرہ کچھ بھی بننے کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اگر اس عمر میں اس کے سامنے ایک ہاتھ پر کتاب رکھ دی جائے اور دوسری طرف ایک پری مثال دوشیزہ کو بٹھا دیا جائے تو عبدالرشید صاحب کا کیا خیال ہے کہ کیا وہ درسی کتاب میں ڈوبنے کو ترجیح دے گا؟ وہ تو کتاب عشق میں غرق ہو گا اور ابھی یونیورسٹی بھی نہیں پہنچا ہو گا کہ کاکا گود میں اٹھائے ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہا ہو گا۔

نیز اس عمر میں جیسا جوش و جذبہ ہو گا تو اس کے والدین پہلے تو اپنا ایک بچہ پال رہے ہوں گے، اس کے بعد اپنے درجن بھر پوتے پوتیوں کا خرچہ بھی ان کے سر پر پڑ جائے گا۔ وہ خرچہ کون دے گا؟ کیا حکومت اس اٹھارہ سالہ جوڑے کو رہنے کو مکان اور کھانے کو پیسہ دے گی؟ اور جب اس کی عمر چھتیس سینتیس برس کی ہو گی تو اس کے والدین اپنے پہلے پوتے پوتی کی شادی کر کے اس کا کنبہ بھی پالیں گے۔ یعنی ساٹھ برس کی ریٹائرمنٹ کی عمر ہونے تک ایک شخص کوئی پچیس تیس افراد کا کنبہ پالے گا۔ ایسی صورت میں والدین کے لیے کوئی نامعقول سی وجہ بیان کر کے پانچ سو روپیہ جرمانہ ادا کرنا بہت سستا پڑے گا۔

 

یا پھر وہ نزدیکی ڈاکٹر سے سو روپے میں میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی بنوا کر دے سکتے ہیں کہ ہمارا بچہ شادی کے قابل نہیں، اس کو احساس پروگرام سے سرکاری خرچے پر نیلی گولیاں خرید کر دی جائیں۔ اچھا اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین نہیں ہیں ان کا پان سو روپلی جرمانہ کون ادا کرے گا؟ کیا وہ سرکاری خزانے سے بھرا جائے گا؟

ہماری رائے میں عبدالرشید صاحب کی تجویز تو اچھی ہے لیکن طریقہ کار غلط ہے۔ ادھر اسلام کی جنم بھومی عربستان میں نوجوانوں کو یہی مسئلہ پیش آیا کہ شادی کرنے کا ان کا دل تو بہت تھا لیکن پیسے کی بہت تنگی تھی۔ وہ خاندان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ لڑکیاں بھی گھر بیٹھے بوڑھی ہو رہی تھیں۔ یا وہ مستقل اپنے میاں بیوی کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔ تو عربوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ نکاح مسیار شروع کر دیا۔

نکاح مسیار میں لڑکا لڑکی شادی کرنے کے باوجود اپنے اپنے گھر میں اپنے اپنے والدین کے خرچے پر رہتے ہیں بس کبھی کبھار آپس میں خوب گھل مل لیتے ہیں۔ بیوی نان نفقے اور ساتھ رہنے کے حق سے دستبردار ہو جاتی ہے اور معاشرے میں بے راہ روی کے تدارک کے لیے حسب ضرورت یک جان ہو جاتے ہیں۔ یعنی وہی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جسے انگریزی محاورے میں ”وھیم بینگ تھینک یو میم“ سے بیان کیا جاتا ہے یا اردو میں اکبر الہ آبادی یوں کہہ گزرے ہیں

وصل کی صبح پہلوئے بت سے
اٹھ گئے یار تھینک یو کہہ کے

یوں خرچہ بھی نہیں ہوتا، لڑکا لڑکی اپنی پڑھائی اور کیرئیر کا سفر بھی جاری رکھتے ہیں اور بے حیائی کا تدارک بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارا مطالعہ اس ضمن میں محدود ہے، ہمیں علم نہیں کہ ان کے باہمی میل جول کے دوران خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کا خرچ اس کا نانا اٹھاتا ہے یا دادا۔ عبدالرشید صاحب اس پر تحقیق کریں اور مناسب طریقہ کار وضع کریں تاکہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

 

Recommended