Urdu News

سوہانا شرما کماری: پاکستان میں ہندو طبقہ کی ایک بلند آواز جو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں

صوبہ سندھ کی ایک چودہ سالہ ہندو لڑکی سوہانا شرما کماری

یہ کوئی فکشن کی  کہانی نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت بر مبنی کہانی ہے۔یہ وہ  سچائی ہے جو 14  سالہ سوہانا شرما کماری کی دل کی آواز ہے۔سوہانا  ایک ہندو نابالغ لڑکی ہیں ، جسے پاکستان میں موجود شدت پسند لوگوں نے  تاریکی میں دھکیل دیا ، ایک ایسی تاریکی جہاں صرف رسوائی ہی رسوائی ہے۔رسوائی کایہ   سلسلہ  بہت سخت اور مایوس کن ہے۔ سوہانا کی کہانی پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع بے نظیر آباد کے ایک گھر کی چوکھٹ سے شروع ہوتی ہے جہاں چند بد دماغ اور متشدد لوگوں نے اس کی   معصومیت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔2 جون 2023 کو ایک ظالمانہ اور غیر انسانی فعل  انجام دیتے ہوئےچند مسلح افراد نے سوہانا کے پرامن رہائش گاہ پر اچانک دھاوا بول دیا۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

سوہانا کے والد دلیپ کمار کی نرم  اور شفقت سے بھرپور آرزؤں کا قتل کرتے ہوئے زبردستی گھر سے اٹھالیا۔باپ کی شفقت اور بے بسی دونوں امتحان میں سوہانا مات کھا گئیں کیوں کہ اس ظالم سماج نے بات کی محبت اور شفقت  دونوں سوہانا سے اچک لیا۔ایک باپ اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیے ہر چہار جانب آواز لگائی لیکن ہر طرف سے اسے مایوسی  ہی ہاتھ لگی۔ باپ کی لاچاری اور تکلیف لفظوں میں بیان کرپانا مشکل ہے۔ بس اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نوجوان بیٹی کی آبرو چند غنڈے اور لیٹرے لوٹ رہے ہوں  تو ایک لاچار اور بے بس باپ کس کیفیت سے دو چار ہوسکتا ہے۔ سوہانا کے والد بھی اسی کیفیت سے دو چار ہورہے تھے۔

سوہانا کے اغوا کاروں نے، ایک  خاص  نظریے کے تحت، اسے زبردستی اسلام قبول کر نے پر مجبور کیا، اس کی شناخت اور وہ سب کچھ چھین لیا جو اسے عزیز تھی۔ انہوں نے اسے قاضی احمد نامی شخص کے ساتھ شادی کرنے پربھی  مجبور کیا، اور ہمیشہ کے لیے سوہانا سے اس کی من پسند  زندگی جینے  کا موقع چھین لیا جس کا اس نے ہمیشہ سے خواب دیکھا تھا۔سوہانا کی آواز، جو کافی مضبوط  اور امید سے بھری ہوئی تھی، اچانک سےخاموش ہو گئی، ناانصافی کے شورنےاس کی حسرتوں کا خون کر ڈالااور ہمیشہ کے لیے جبر و ظلم کی دیوار پر کھڑی حکومت اور سماج کے سامنے دم توڑ دیا۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

اس دل دہلا دینے والے سانحے پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق اور اس جیسی تنظیمیں جو انسانیت کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں خاموشی کا چولہ پہن کر گم نامی کی زندگی گزارنے میں ہی اپنی عافیت  سمجھی۔کہاں ہیں وہ نام نہاد کارکن جو اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہے ہیں؟ سوہانا کے مصائب کی گہرائیاں کیا انسانی زمر ے میں نہیں آتے ہیں؟ایک کمزور معاشرے  کی حفاظت کیا انسانی حقوق کے دائرہ کار سے باہر ہے؟ کیا انسانی حقوق کے کارکن  ایک بچی کی خواہشات، باپ کا خالی دامن اورمایوس آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت رکھتے ہیں؟

دلیپ کمار کے غم سے ہمدردی رکھنے والے ان گنت افراد آنسو بہار ہے ہیں۔ اذیت ناک احساس سے گزر رہے ہیں۔ کیا انسانیت اپنا راستہ کھو چکی ہے؟ کیا ہمدردی اور انصاف کی شمع بجھ گئی ہے؟ ایک باپ کی اذیت کی چیخوں نے اپنی بیٹی کو بڑھتے اور پھلتے پھولتے دیکھنے کے حق سے انکار کر دیا تھا جو ٹوٹی ہوئی دنیا کی بازگشت سے گونج رہی تھی۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

ان لمحات میں، ہمیں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کےوہ الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ’’دنیا میں کہیں بھی ناانصافی  ہو، وہ ہر جگہ کے انصاف کے لیے خطرہ ہے‘‘۔سوہانہ کی حالت زار کسی ایک گھر کی دیواروں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے  کہ ایک شخص کے حقوق کی خلاف ورزی ہم سب کے لیے انصاف کے تانے بانے کو داغدار کر دیتی ہے۔ اس کی غضب شدہ آزادی کی بازگشت انسانیت کی نازک حالت کی ایک ٹھنڈی یاد دہانی کے طور پر گونجتی ہے، جو ہمیں متحد ہونے، ہمدردی کے شعلوں کو دوبارہ جلانے اور اس اندھیرے کے خلاف لڑنے کی دعوت دیتی ہے جو کچھ  لوگ مل کر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سوہانا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دنیا میں کسی کے ساتھ ہو، ایسا ہم نہیں چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے  کہ ہم  ایک اجتماعی بیداری کی تحریک  شروع کرے جو ہر فرد کے لیے انسانی حقوق اور وقار کے تحفظ میں معاون و مدد گار ہو۔ اس کی تکالیف ہمیں بھی پریشان کرے۔ ہم بلند آواز میں یہ عہد کرے  کہ ہم سب ساتھ کھڑے ہیں، ہاتھ سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔سوہانا کے لیے اور ان جیسی لاتعداد ظلم و ستم کی شکار بچیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں جنہوں نے مختلف وقتوں میں حادثات، سانحات جھیل کر دنیا سے پر امید ہے کہ کبھی کوئی ہمارے لیے آواز بلند کرے گا، اور ہمیں انصاف ملے گا تب ہی ہم انسانیت پر ایمان کی بحالی کی امید کرسکتے ہیں اور ایک خوف ناک دنیا سے باہر نکل سکتے ہیں۔

ویڈیو دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

Recommended