جامعہ الازہر کے مفتی اعظم ڈاکٹر احمد محمد احمد الطیب نے افغان طالبان کے خواتین کے لیے یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دیا اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔جامعہ الازہر کے عظیم اسلامی اسکالر نے جمعہ کے روز اپنے فیس بک پر لکھا کہ “فیصلے نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے” اور کسی مسلمان رہنما کو ایسے شرمناک حکم نامے کا حکم نہیں دینا چاہیے۔
معروف سنی عالم دین نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کا لڑکیوں کی یونیورسٹی میں تعلیم معطل کرنے کا تازہ حکم نامہ انتہائی افسوسناک اور تمام محاذوں پر اسلامی شریعت سے متصادم ہے۔ انہوں نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو خبردار کیا کہ اس فیصلے کو اسلامی حکم نہ سمجھا جائے۔ اسلام انسانیت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب جمعرات کو امارت اسلامیہ افغانستان کے قائم مقام وزیر اعلیٰ تعلیم ندا محمد ندیم نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ افغان لڑکیوں نے یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے اور انہوں نے گرلز یونیورسٹی کی معطلی کی چار مخصوص وجوہات پر روشنی ڈالی۔
امارت اسلامیہ افغانستان نے لڑکیوں کو قواعد کی پابندی کے لیے کافی وقت [14 ماہ[ دیا تھا، لیکن کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔ افغانستان کے عبوری حکام کے تازہ ترین فیصلے پر اسلامی ریاستوں اور تنظیموں سمیت دنیا بھر میں تنقید ہوئی ہے – سبھی نے اس فیصلے کو منسوخ کرنے اور افغان خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور کام تک رسائی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔