کابل، 03 نومبر (انڈیا نیرٹیو)
طالبان نے افغانستان میں غیر ملکی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا انتباہ دیا گیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ عام شہری، دکاندار، تاجر اور عام عوام افغانستان میں غیر ملکی کرنسی استعمال نہ کریں۔ احکامات پر عمل نہ ہونے کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی مارکیٹوں میں امریکی کرنسی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ سرحدی ملک پاکستان کی کرنسی بھی تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ امریکا، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان تک 9.5 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی رسائی کو روک دیا ہے۔ افغانستان کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے۔
واضح ہو کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے ملک میں غیر ملکی کرنسی کے ذریعے معاملات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ طالبان کے مطابق اس فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے کیوں کہ یہ ملکی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے۔طالبان تحریک کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کے روز اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ "ملک میں غیر ملکی کرنسی کے استعمال پر مکمل پابندی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ملک میں اقتصادی صورت حال اور قومی مفادات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تمام افغان شہری ہر قسم کی لین دین میں افغانی کرنسی کا استعمال کریں "۔اس وقت ملک میں کئی معاملات میں امریکی ڈالر کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ جنوبی سرحد کے تجارتی راستوں کے نزدیک واقع علاقوں میں پاکستانی روپیہ بھی استعمال ہوتا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایجنسیاں خبردار کر چکی ہیں کہ افغانستان دنیا میں بدترین انسانی بحرانات میں سے ایک بحران کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ایجنسیوں کے مطابق رواں موسم سرما میں 2.2 کروڑ سے زیادہ افغانوں کو غذائی امن کے فقدان کا سامنا ہو گا۔یاد رہے کہ اگست کے وسط میں افغانستان پر طالبان تحریک کے مکمل کنٹرول کے بعد سے 3.8 کروڑ کی آبادی والے ملک کو غذائی قلت اور رقوم اور سیالیت کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ بیرون ملک افغان مرکزی بینک کے مالی اثاثوں کا منجمد کیا جانا اور بین الاقوامی امدادوں کا روک دیا جانا ہے۔