Urdu News

طالبانی فرمان جاری: لڑکے نہ ہونے پر لڑکیاں لے سکیں گی کلاس، عجیب الجھ میں افغان خواتین

طالبانی فرمان جاری: لڑکے نہ ہونے پر لڑکیاں لے سکیں گی کلاس

کابل: نئی طالبان حکومت  (Taliban New Govt) میں وزیر تعلیم نے کہا کہ خواتین یونیورسٹیوں میں پوسٹ گریجویٹ سمیت ہر سطح پر تعلیم حاصل کر سکتی ہیں  لیکن صنف کی بنیاد پر کلاسیں تقسیم ہونی چاہئیں اور اسلامی لباس پہننا لازمی ہوگا۔ وزیر عبدالباقی حقانی نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں ان نئی پالیسیوں کا خاکہ پیش کیا۔ اس سے کچھ دن پہلے افغانستان کے نئے حکمرانوں نے ایک مکمل طالبان حکومت بنانے کا اعلان کیا جس میں ایک بھی عورت شامل نہیں ہے۔

وزیر عبدالباقی حقانی نے کہا کہ یونیورسٹی کی طالبات کو حجاب پہننا پڑے گا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا مطلب صرف سر پر دوپٹہ پہننا ہے یا چہرے کو ڈھانپنا بھی لازمی ہوگا۔ اس سے قبل طالبان نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات کو صرف خواتین پڑھائیں اور اگر ممکن ہو تو وہ اچھے کردار کے بوڑھے مردوں کو مقرر کر سکتے ہیں۔ طالبان نے مزید احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو اپنا سبق پانچ سے دس منٹ پہلے ختم کرنا ہوگا تاکہ وہ باہر کسی سے نہ مل سکیں۔

طالبان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ حکومت صرف افغانستان میں شرعی قانون کے تحت چلے گی۔ ذبیح اللہ مجاہد نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان سے نہ نکلیں۔ اسلامی ملک کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بیرونی ممالک کو بھی افغانستان میں اپنے سفارت خانے دوبارہ شروع کرنے چاہئیں۔

حال ہی میں طالبان کے ترجمان سید ذاکر اللہ ہاشمی نے کہا تھا کہ 'ایک خاتون وزیر نہیں بن سکتی۔ عورت کا وزیر بننا اس کے گلے میں کوئی چیز ڈالنے کے مترادف ہے جسے وہ اٹھا نہیں سکتی۔ خواتین کا کابینہ میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ ان کے بچے ہونے چاہئیں۔ یہی ان کا کام ہے۔ خواتین مظاہرین افغانستان میں تمام خواتین کی نمائندگی نہیں کر رہی ہیں۔

Recommended