تہران،22جون(انڈیا نیرٹیو)
ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے مذاکرات کاروں نے 2015میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی سے متعلق بات چیت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی ہے اور ان کے درمیان موجود مختلف امور پر اختلافات دور نہیں ہوسکے ہیں۔اب تمام مذاکرات کار مزید مشاورت کے لیے اپنے اپنے دارالحکومتوں کو لوٹ رہے ہیں۔
ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار عباس عراقچی نے ویانا سے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”اب ہم کسی سمجھوتے کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں لیکن ہمارے اور نئے سمجھوتے کے درمیان ابھی فاصلہ موجود ہے اور اسے ختم کرنا آسان کام نہیں۔ ہم آج رات تہران واپس پہنچ رہے ہیں۔“
ویانا میں مذاکرات کے اس چھٹے دورکے خاتمے سے قبل دوبارہ مل بیٹھنے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔روس کے ایلچی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے نئے دور کی کوئی تاریخ فی الحال مقرر نہیں کی گئی ہے۔ انھوں نے دس روز کے بعد دوبارہ اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔ایران میں گزشتہ جمعہ کو منعقدہ صدارتی انتخابات میں مغرب کے سخت ناقد ابراہیم رئیسی نے کامیابی حاصل کی ہے اور اگست کے اوائل میں وہ موجودہ عملیت پسند صدر حسن روحانی کی جگہ عہدہ سنبھالیں گے۔ان کی حکومت ہی میں 2015ءمیں ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری سمجھوتا طے پایا تھا۔
لیکن ابراہیم رئیسی کی جیت سے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی قیادت میں ایران کی پالیسیوں میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہیں کیونکہ وہی تمام اہم پالیسیوں پرحتمی رائے رکھتے ہیں۔ایرانی قائدین جوہری سمجھوتے کی بحالی سے قبل ایران عاید کردہ امریکا کی تمام پابندیوں کے خاتمے پر زوردے رہے ہیں۔یورپی یونین کے سیاسی ڈائریکٹر اینریک مورا نے ویانا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ہفتہ پہلے کے مقابلے میں کسی سمجھوتے سے زیادہ قریب ہیں۔
تاہم امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ جوہری سمجھوتے کو کیسے بحال کیاجائے،اس پر اختلاف برقرارہے، انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ اس معاملے پر حتمی فیصلہ تو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہی کرسکتے ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ انھوں نے آسٹریا میں زیر بحث ممکنہ سمجھوتے کے متن کو ایڈٹ کیا ہے اور یہ ”صاف شفاف“ ہورہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اگست کے وسط سے پہلے کوئی سمجھوتا طے پا سکتا ہے۔اس وقت ہی ایران کی موجودہ انتظامیہ اقتدار سے سبکدوش ہوگی۔ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان اپریل سے ویانا میں جوہری سمجھوتے کی بحالی سے متعلق امور پرمذاکرات کے چھے دور ہوچکے ہیں۔تاہم ابھی تک ان کے درمیان امریکا کی جوہری سمجھوتے میں واپسی کے لیے مجوزہ اقدامات اور ایران کی جانب سے سمجھوتے کی مکمل پاسداری سے متعلق امورپراختلافات پائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پرعلاحدگی کااعلان کردیا تھا اور اس کے خلاف اسی سال نومبر میں سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔ان سے ایرانی معیشت زبوں حال ہوچکی ہے۔امریکا کی موجودہ بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ اب ایک نظرثاتی شدہ جامع سمجھوتے پر زوردے رہی ہے جس کے تحت اس کے جوہری پروگرام کے علاوہ بیلسٹک میزائل کے پروگرام کی سرگرمیوں پر بھی قدغنیں عاید کی جائیں گی۔تاہم وہ اس کی خطے کے ممالک میں گماشتہ تنظیموں کے ذریعے مداخلت کو روک لگانے پر زیادہ زور نہیں دے رہی ہے۔ایران مشرقِ اوسط کے ممالک میں حزب اللہ ، جہاد اسلامی ، حوثی ملیشیا اور عراق کی شیعہ ملیشیاؤں کے ذریعے مداخلت کررہا ہے جس کی وجہ سے اس کے ہمسایہ عرب ممالک نالاں ہیں۔