Urdu News

طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے: گوٹیرس کا عالمی برادری پر زور

طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے: گوٹیرس کا عالمی برادری پر زور

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اقدار سنبھالنے والی تحریکِ طالبان کے ساتھ ’بات چیت‘ کرے۔ جمعرات کے روز فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے باور کرایا کہ افغانستان کو ’اقتصادی طور پر ڈھیر‘ ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں ’لاکھوں افراد‘ موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

گوٹیرس کے مطابق طالبان کے ساتھ مذاکرات ناگزیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز نہ بنے،، خواتین اور لڑکیاں ان حقوق سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں جو انہوں نے گزشتہ عرصے کے دوران میں حاصل کیے،، اگر ہم چاہتے ہیں کہ مختلف نسلی جماعتیں خود کو نمائندگی کی حامل محسوس کریں،،، تو پھر ہمیں ایسا کرنا ہو گا‘۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے مطابق اگر ضرورت پڑی تو صورت حال مناسب ہونے پر وہ کسی روز افغانستان جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ افغانستان میں ایک ’جامع حکومت‘ چاہتی ہے جو تمام افغان معاشرے کی نمائندگی کرے۔ گوٹیرس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ چند روز قبل طالبان کی جانب سے اعلان کردہ ابتدائی حکومت مطلوبہ تاثر نہیں دے رہی ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ ’ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ملک کو امن و استحکام کے ساتھ چلایا جائے اور ساتھ ہی لوگوں کے حقوق کا مکمل احترام ہو۔

 طالبان تحریک چاہتی ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے اور اس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔یہ بات عالمی برادری کو ایک قوت فراہم کرتی ہے‘۔گوٹیرس کے مطابق عالمی برادری طالبان پر عائد پابندیوں سے قطع نظر کابل کو مالی معاونت فراہم کر سکتی ہے تا کہ افغانستان کی معیشت سانس لے سکے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے انٹرویو میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا کہ افغانستان میں طالبان تحریک کے اقتدار پر کنٹرول کے بعد افریقی ساحل کے علاقے میں دہشت گرد مسلح جماعتیں اسی طرح کا منظر نامہ دہرا سکتی ہیں۔ گوٹیرس نے کہا کہ ’دنیا میں حیران کن صورت حال سامنے آ رہی ہے۔ ایسی چند جماعتیں وجود رکھتی ہیں جن کے لیے موت کا راستہ پسندیدہ ہے اور وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی بڑی فوجیں بھی ان ک سامنے ڈھیر ہو رہی ہیں۔ ہم عراق، مالی اور موزمبیق میں یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں‘۔

Recommended