کراچی، 8 مارچ
سال1999 میں افغانستان کے قندھار میں ہندوستانی طیارے IC-814کو ہائی جیک کرنے والا ظہور مستری مبینہ طور پر کراچی شہر میں مارا گیا ۔ ظہور مستری ان پانچ اغوا کاروں میں سے ایک تھا جنہوں نے بھارتی طیارہ کواغوا کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں زاہد اخوند کی فرضی شناخت سے رہائش پذیر مستری کو یکم مارچ کو کراچی کی اختر کالونی میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ ظہور جو کہ IC-814کو ہائی جیک کرنے میں ملوث پانچ دہشت گردوں میں سے ایک تھا، برسوں سے پاکستان میں ’زاہد اخوند‘ کے طور پر رہ رہا تھا اور کراچی کی اختر کالونی میں ’کریسنٹ فرنیچر‘ اسٹور کا بھی مالک تھا۔ نیوز 9 کے مطابق پاکستانی میڈیا ایجنسی جیو ٹی وی نے کراچی میں ایک مخصوص تاجر کے قتل کی خبر دی تھی۔
دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار دو افراد دن دیہاڑے اختر کالونی کا رخ کر رہے تھے جب تک کہ وہ تاجر کو نشانہ بنانے کے لیے فرنیچر کے گودام میں داخل ہوئے۔ اگرچہ جیو ٹی وی نے مقتول کی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں، پاکستانی میڈیا کے ذرائع نے اس شخص کی شناخت ظہور مستری ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع کے مطابق میڈیا سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی عجیب و غریب وجہ سے اس معاملے کی رپورٹنگ نہ کریں۔ ظہور کی نماز جنازہ جیش محمد کے سرکردہ دہشت گردوں نے پڑھائی جس میں رؤف اصغر بھی شامل ہے جو جیش کے سربراہ مسعود اظہر کا بھائی ہے۔
غور طلب ہے کہ 24 دسمبر 1999 کو انڈین ایئر لائنز کے طیارے (IC-814) کو نیپال سے تعلق رکھنے والے حرکت المجاہدین سے تعلق رکھنے والے پانچ دہشت گردوں نے ہائی جیک کیا۔ جس طیارہ کو دہلی پہنچنا تھا، اس نے لاہور، امرتسر اور دبئی میں مشتبہ طور پر روکا اور افغانستان کے قندھار میں ٹھہرا جو طالبان کے زیر کنٹرول تھا۔ طیارے میں سوار تقریباً 178 افراد اور عملے کے 11 ارکان کو ایک ہفتے کے لیے یرغمال بنایا گیا تھا جب کہ ہندوستان کی جانب سے جیش محمد کے تین دہشت گردوں جیسے مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرگر کو رہا کرنے پر مجبور ہونے کے بعد اس ہائی پروفائل ڈرامہ کا خاتمہ ہوا۔