Urdu News

بنگلہ دیش کے قومی دن کے پروگرام کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

PM's address at the National Day programme of Bangladesh

 

 

نئی دلّی ، 26 مارچ /

نوموشکار !

حضراتِ گرامی  ،

بنگلہ دیش کے  صدرِ جمہوریہ

عبد الحامد جی ،

وزیر اعظم

شیخ حسینہ جی،

وزیر زراعت

ڈاکٹر محمد عبد الرزاق جی ،

میڈم شیخ ریحانہ جی ،

دیگر  ممتاز مہمان  حضرات ،

شونار بنگلہ دیشیر پریو بوندھورا ،

          آپ سبھی کی یہ محبت میری زندگی کے  انمول لمحوں میں سے ایک ہے   ۔ مجھے خوشی ہے  کہ بنگلہ دیش کی ترقی کے سفر کے  ، اِس اہم مرحلے میں آپ نے مجھے بھی شامل کیا ۔ آج بنگلہ دیش کا قومی دن ہے   تو  شادھی – نوتا کی  50 ویں سالگرہ بھی ہے ۔  اسی سال ہی بھارت – بنگلہ دیش دوستی کے 50 سال پورے ہو رہے ہیں ۔  جاتِر پیتا  بانگو بوندھو شیخ مجیب الرحمٰن کی پیدائش کی صدی   کا یہ سال  دونوں  ملکوں کے  تعلقات کو  اور مضبوط کر رہا ہے ۔

حضراتِ گرامی

          صدرِ جمہوریہ  عبد الحامد جی  ، وزیر اعظم شیخ حسینہ جی اور بنگلہ دیش کے  شہریوں کا  ، میں شکریہ   ادا کرتا ہوں ۔ آپ نے اپنے  اِن فخر کے لمحوں میں  ، اِس  خوشی کی گھڑی میں  حصہ دار بننے کے لئے  بھارت کو  پوری محبت کے ساتھ دعوت دی ۔ میں سبھی بھارتیوں کی طرف سے آپ سبھی کو  ، بنگلہ دیش کے سبھی  شہریوں  کو  تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں ۔  میں بونگو بوندھو  شیخ مجیب الرحمٰن  جی  کو    قابل احترام  طریقے سے  خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے بنگلہ دیش   اور یہاں کے لوگوں کے لئے اپنی زندگی  قربان کر دی ۔   ہم   بھارت کے شہریوں کے لئے  فخر کی بات ہے کہ ہمیں  شیخ مجیب الرحمٰن جی کو  گاندھی  امن انعام دینے کا  موقع ملا ۔ میں یہاں ابھی  ، اِس پروگرام میں   شرکت کرنے والے  سبھی فن کاروں کی بھی  ستائش کرتا ہوں ۔ 

          بوندھو گون ، میں آج  یاد کر رہا ہوں ، بنگلہ دیش کے ، اُن لاکھوں بیٹے بیٹیوں کو  ، جنہوں نے اپنے ملک ، اپنی زبان  ، اپنی تہذیب کے لئے  بے شمار  مظالم سہے  ، اپنا خون دیا، اپنی زندگی  داؤ پر لگا دی   ۔ میں آج یاد کر رہا ہوں  ، مُکتی جدھو کے بہادروں کو  ۔ میں آج  یاد کر رہا ہوں شہید  دھیریندرو ناتھ  دتّو کو  ، ماہرِ تعلیم  رفیق الدین احمد کو  ، بھاشا شہید  سلام ، رفیق  ، برکت  ، جبار اور شفیع الر   جی کو   ۔

          میں آج  بھارتی فوج کے  ، اُن  بہادر جوانوں کو بھی  سلام پیش کرتا ہوں  ، جو مکتی جدھو میں بنگلہ دیش کے بھائی بہنوں کے  ساتھ   کھڑے ہوئے تھے ۔ جنہوں نے مکتی جدھو میں  اپنا لہو دیا   ، اپنی قربانی دی  اور آزاد بنگلہ دیش کے   خوابوں کو  پورا کرنے میں  بہت بڑا رول ادا کیا ۔  فیلڈ مارشل سیم مانک شا ،  جنرل ارورا ،  جنرل جیکب  ، لانس نائک  ایلبرٹ   اکاّ  ، گروپ کیپٹن  چندن  سنگھ ،  کیپٹن  موہن نارائن راؤ سامنت ، ایسے بے شمار کتنے ہی   بہار ہیں ، جن کی قیادت اور شجاعت کی کہانیاں  ہمیں تحریک دیتی ہیں  ۔ بنگلہ دیش حکومت  کے ذریعے ، ان بہادروں کی  یاد میں  آشو گونج میں  وار میموریل   وقت کیا گیا ہے ۔

          میں اِس کے لئے  آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں  ۔ مجھے خوشی ہے  کہ مکتی جدھو میں  شامل کئی بھارتی سپاہی  آج  ، خاص طور پر  ، اِس پروگرام میں  میرے ساتھ  موجود بھی ہیں ۔ بنگلہ دیش کے میرے بھائیو ں اور بہنوں ، یہاں کی نو جوان پیڑھی کو     ، میں ایک اور بات یاد کرانا چاہوں گا اور بڑے فخر کے ساتھ یاد دلانا چاہتا ہوں  ۔ بنگلہ دیش کی  آزادی کی  جدو جہد میں  ، اُس جدو جہد میں  شامل ہونا ، میری زندگی  کی بھی   تحریکوں میں سے ایک   تھا ۔   میری عمر 20 – 22 سال رہی ہو گی ۔ جب میں نے اور میرے کئی  ساتھیوں نے  بنگلہ دیش کے لوگوں کی آزادی کے لئے   ستیہ گرہ کیا تھا ۔

          بنگلہ دیش  کی آزادی  کی حمایت میں   تب میں نے  گرفتاری  بھی دی تھی اور جیل جانے   کا موقع بھی  آیا تھا یعنی  بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جتنی  ٹرپ اِدھر تھی ، اُتنی ہی تڑپ اُدھر بھی تھی ۔  یہاں پاکستان کی فوج نے  ، جو  زبردست  جرائم    اور مظالم کئے ، وہ تصویریں   بے چین کرتی تھیں  ، کئی کئی دن تک سونے نہیں  دیتی تھیں ۔ 

گوبندو ہالدر  جی نے کہا تھا –

‘ ایک شاگور روکتیر  بِنی موئے  ،

بانگلار شادھی نوتا آنے جارا ،

آمرا توما دیر  بھولبو  نا ،

آمرا توما دیر  بھول بو نا ، ’

          یعنی ، جنہوں نے اپنے خون کے  دریا سے  بنگلہ دیش  کو آزادی دلائی ، ہم انہیں  بھولیں گے نہیں  ، ہم اُنہیں بھولیں گے نہیں ۔ بوندھو گون ، ایک  بے لگام سرکار اپنے ہی شہریوں کا   قتلِ عام کر رہی تھی  ۔

          اُن کی زبان ، اُن کی آواز ، اُن کی پہچان کو کچل رہی تھی  ۔ ‘ آپریشن سرچ لائٹ  ’ کی اُس بربریت   ، ظلم  و جبر  کے بارے میں دنیا میں  ، اُتنا  تذکرہ نہیں ہوا ہے   ، جتنا  ، اُس کا تذکرہ ہونا چاہیئے تھا ۔  بوندھو گون  ،  اِن سب کے بیچ   یہاں کے لوگوں اور  ہم بھارتیوں کے لئے امید کی کرن تھے  – بونگو بوندھو  شیخ مجیب الرحمٰن ۔

          بونگو بوندھو کے حوصلے نے  ، اُن کی قیادت نے  یہ طے کر دیا تھا کہ کوئی بھی طاقت  بنگلہ دیش کو  غلام نہیں رکھ سکتی ۔ 

          بونگو بوندھو نے اعلان کیا تھا  –

ایبا ریر  شونگرام آمادیر  مکتیر  شونگرام ،

ایبا ریر  شونگرام  شادھی نوتار شونگرام ۔

اِس مرتبہ  جدو جہد ، آزادی کے لئے ہے ، اِس مرتبہ  جدو جہد   آزادی کے لئے ہے ۔ اُن کی قیادت  میں یہاں کے عام انسانی ، مرد ہو یا عورت ہو ، کسان ، نوجوان  ، ٹیچر  ، کاریگر سب ایک ساتھ  آکر  مُکتی واہنی بن گئے  ۔

اور اِس لئے   آج کا یہ موقع  ، مجیب بورشے  ، بونگو بوندھو  کے ویژن  ، اُن کے  اقدار  اور اُن کے  حوصلے کو  یاد کرنے کا بھی دن ہے ۔ یہ وقت   ‘‘چرو بدروہی ’’ کو ، مکتی جدھو کے جذبے کو  دوبارہ یاد کرنے کا وقت ہے ۔   بوندھو گون ، بنگلہ دیش  کی خود مختاری کی جدو جہد کو بھارت کے کونے کونے سے ، ہر پارٹی سے ، سماج کے ہر طبقے سے  حمایت  حاصل تھی ۔

اُس وقت کی وزیر اعظم  محترمہ اندرا گاندھی جی کی  کوشش اور  اُن کے اہم رول کا  نتیجہ ہے  ۔  اسی دور میں  6 دسمبر  ، 1971 ء کو  اٹل بہاری واجپئی جی نے کہا تھا   –  ‘‘ ہم نہ صرف  آزادی کی جدو جہد میں اپنی زندگی  کی  قربانی دینے والوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں   ، لیکن ہم   تاریخ کو ایک نئی سمت دینے کی بھی  کوشش کر رہے ہیں  ۔ آج بنگلہ دیش  میں اپنی آزادی  کے لئے لڑنے  والوں اور بھارتی  جوانوں کا  خون  ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے ۔

یہ خون  ایسے رشتوں کی  تعمیر کرے گا ، جو کسی بھی   دباؤ سے  ٹوٹیں گے نہیں ، جو کسی بھی  سفارتی پالیسی کا شکار  نہیں بنیں گے ’’ ۔ ہمارے  سابق صدرِ جمہوریہ پرنب مکھر جی    ، پرنب دا نے کہا تھا  ، بانگو بوندھو کو   انہوں نے  ایک انتھک  دانشور تھا  ۔ انہوں نے کہا تھا کہ شیخ  مجیب الرحمن کی زندگی  صبر  ، استقلال  اور  خود احتسابی  کی علامت ہے ۔

بوندھو گون ، یہ ایک  خوش قسمتی  ہے کہ بنگلہ دیش کے  آزادی کے  50 سال  اور بھارت  کی آزادی کے 75 سال کا مرحلہ  ، ایک ساتھ ہی آیا ہے ۔ ہم دونوں ہی ملکوں کے لئے ،  21 ویں صدی میں  اگلے 25 سال  کا سفر  بہت ہی اہم ہے ۔ ہماری وراثت بھی مشترک ہے  ، ہماری ترقی بھی مشترک ہے ۔

ہمارے مقاصد بھی  مشترک ہیں ، ہماری چنوتیاں بھی مشترک ہیں ۔ ہمیں یاد رکھنا ہے  کہ تجارت  اور صنعت میں ، جہاں ہمارے لئے   ایک جیسے امکانات ہیں تو  دہشت گردی جیسے  یکساں خطرے بھی ہیں ، جو سوچ اور طاقتیں ، اس  طرح کے  غیر انسانی   واقعات  کو انجام دیتے ہیں  ، وہ اب بھی سرگرم ہیں ۔

ہمیں ، اُن سے ہوشیار بھی رہنا  چاہیئے اور اُن سے مقابلہ کرنے کے لئے  متحد بھی رہنا چاہیئے ۔ ہم دونوں ہی ملکوں کے پاس  جمہوریت کی طاقت ہے  ، آگے بڑھنے کا  واضح خاکہ ہے ۔ بھارت اور بنگلہ دیش  ایک ساتھ مل کر  آگے بڑھیں ، یہ اِس پورے خطے  کی ترقی کے لئے  اُتنا ہی ضروری ہے ۔

اور اِس لئے آج ، بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ہی   ملکوں کی حکومتیں  ، اِس  حساسیت کو سمجھ کر  ، اِس سمت   بھر پور کوشش کر رہی ہیں ۔ ہم نے دکھا دیا ہے کہ آپسی  اعتماد   اور تعاون سے  ہر ایک  مسئلے کا حل ہو سکتا ہے ۔   ہمارا زمینی سرحد  کا معاہدہ بھی اِسی کا گواہ ہے ۔ کورونا کے اِس   بحران میں بھی  دونوں ملکوں کے درمیان  بہترین تال میل رہا ہے ۔

ہم نے سارک کووڈ  فنڈ کے قیام میں تعاون دیا  ، اپنے  انسانی وسائل کی   تربیت میں  تعاون دیا ۔ بھارت کو اِس بات کی  بہت خوشی ہے  کہ میڈ اِن انڈیا  ویکسین بنگلہ دیش کے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے کام آ رہی ہے ۔ مجھے یاد ہیں ، وہ تصویریں ، جب اِس سال 26 جنوری کو  ، بھارت کے یومِ جمہوریہ  پر بنگلہ دیش کی مسلح فوجوں  کی   تینوں شاخوں کے دستوں نے  شونو  ایکٹی   مجیبوریر  تھیکے  کی دُھن پر  پریڈ کی تھی ۔

بھارت اور بنگلہ دیش کا مستقبل ، ہم آہنگی سے پُر  باہمی اعتماد   والے ایسے ہی بے شمار  لمحوں کا  انتظار کر رہا ہے ۔ ساتھیوں ، بھارت – بنگلہ دیش کے رشتوں کو  مضبوط کرنے کے لئے دونوں ہی ملکوں کے نو جوانوں میں بہتر  رابطے کی بھی اُتنی ہی   ضرورت ہے  ۔  بھارت – بنگلہ دیش تعلقات کے  50 سال پورے ہونے کے موقع پر    ، میں بنگلہ دیش کے  50 صنعت کاروں کو  بھارت مدعو کرنا چاہوں گا ۔

یہ بھارت آئیں ، ہمارے اسٹارٹ اَپ اور  اختراع پر مبنی معاشی نظام   سے وابستہ ہوں ، وینچر کیپٹلسٹ سے  ملاقات کریں  ۔ ہم بھی اُن سے سیکھیں گے ، انہیں بھی سیکھنے کا موقع ملے گا ۔ میں اِس کے ساتھ ساتھ  ، بنگلہ دیش کے نو جوانوں کے لئے  شبرنو جینتی   اسکالر شپ کا اعلان  بھی کر رہا ہوں ۔

ساتھیوں ،  بونگو بوندھو شیخ مجیب الرحمن جی نے کہا تھا –

‘‘ بنگلہ دیش  اِتی ہاشے  ، شادِھن  راشٹرو  ، ہِشیبے  ٹیکے  تھاکبے  بانگلاکے دابیئے  راکھتے  پارے ، ایمون کونو شوکتی نیئی  ’’ بنگلہ دیش  خود مختار ہوکر رہے گا ۔

          کسی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کو دبا کر رکھ سکے  ۔  بونگو بوندھو کا یہ   مقصد  بنگلہ دیش کے وجود کی  مخالفت کرنے والوں کے لئے  چیلنج بھی تھا  اور  بنگلہ دیش کی طاقت  پر  اعتماد بھی تھا ۔   مجھے خوشی ہے کہ  شیخ حسینہ جی کی قیادت میں   بنگلہ دیش   دنیا میں اپنا دم خم  دکھا رہا ہے ۔ جن لوگوں کو بنگلہ دیش کی تعمیر پر  اعتراض تھا ، جن لوگوں کو  بنگلہ دیش کے وجود پر  شک تھا  ، انہیں بنگلہ دیش نے  غلط ثابت کیا  ہے ۔

ساتھیو  ،

          ہمارے ساتھ  قاضی  نذر الاسلام   اور گرو دیو    رابندرو ناتھ ٹھاکر   کی یکساں وراثت  کی تحریک ہے ۔ 

          گرو دیو نے کہا تھا  –

کال نائی ،

آما دیر ہاتے ؛

کارا کاری کورے تائی ،

شبے ملے  ؛

دیری  کارو  ناہی ،

شہے  ، کوبھو

          یعنی ، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ہے   ، ہمیں تبدیلی کے لئے آگے بڑھنا ہی ہو گا ، اب ہم اور دیر نہیں کر سکتے ۔  یہ بھارت اور بنگلہ دیش   دونوں پر  یکساں طور سے لاگو ہوتی ہے ۔ 

          اپنے کروڑوں لوگوں کے لئے ، اُن کے مستقبل کے لئے  غریبی کے خلاف  ہماری جنگ کے لئے  ، دہشت کے خلاف لڑائی کے لئے ، ہمارے مقاصد ایک ہیں  ۔ اس لئے ہماری کوشش بھی  اسی طرح  یکجہت ہونی چاہیئے  ۔ مجھے یقین ہے کہ   بھارت  – بنگلہ دیش مل  کر تیز رفتار سے ترقی کریں گے ۔ 

          میں ایک بار پھر اِس خوشی کے موقع پر بنگلہ دیش کے سبھی شہریوں  کو بہت بہت  نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں اور دِل سے آپ سبھی کا  بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

          بھاروت   بنگلہ دیش  موئیتری  چرو جیوی  ہوکھ ۔

          انہی نیک خواہشات کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔

جے بنگلہ !

جے ہند !


نئی دلّی ، 26 مارچ /

نوموشکار !

حضراتِ گرامی  ،

بنگلہ دیش کے  صدرِ جمہوریہ

عبد الحامد جی ،

وزیر اعظم

شیخ حسینہ جی،

وزیر زراعت

ڈاکٹر محمد عبد الرزاق جی ،

میڈم شیخ ریحانہ جی ،

دیگر  ممتاز مہمان  حضرات ،

شونار بنگلہ دیشیر پریو بوندھورا ،

          آپ سبھی کی یہ محبت میری زندگی کے  انمول لمحوں میں سے ایک ہے   ۔ مجھے خوشی ہے  کہ بنگلہ دیش کی ترقی کے سفر کے  ، اِس اہم مرحلے میں آپ نے مجھے بھی شامل کیا ۔ آج بنگلہ دیش کا قومی دن ہے   تو  شادھی – نوتا کی  50 ویں سالگرہ بھی ہے ۔  اسی سال ہی بھارت – بنگلہ دیش دوستی کے 50 سال پورے ہو رہے ہیں ۔  جاتِر پیتا  بانگو بوندھو شیخ مجیب الرحمٰن کی پیدائش کی صدی   کا یہ سال  دونوں  ملکوں کے  تعلقات کو  اور مضبوط کر رہا ہے ۔

حضراتِ گرامی

          صدرِ جمہوریہ  عبد الحامد جی  ، وزیر اعظم شیخ حسینہ جی اور بنگلہ دیش کے  شہریوں کا  ، میں شکریہ   ادا کرتا ہوں ۔ آپ نے اپنے  اِن فخر کے لمحوں میں  ، اِس  خوشی کی گھڑی میں  حصہ دار بننے کے لئے  بھارت کو  پوری محبت کے ساتھ دعوت دی ۔ میں سبھی بھارتیوں کی طرف سے آپ سبھی کو  ، بنگلہ دیش کے سبھی  شہریوں  کو  تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں ۔  میں بونگو بوندھو  شیخ مجیب الرحمٰن  جی  کو    قابل احترام  طریقے سے  خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے بنگلہ دیش   اور یہاں کے لوگوں کے لئے اپنی زندگی  قربان کر دی ۔   ہم   بھارت کے شہریوں کے لئے  فخر کی بات ہے کہ ہمیں  شیخ مجیب الرحمٰن جی کو  گاندھی  امن انعام دینے کا  موقع ملا ۔ میں یہاں ابھی  ، اِس پروگرام میں   شرکت کرنے والے  سبھی فن کاروں کی بھی  ستائش کرتا ہوں ۔ 

          بوندھو گون ، میں آج  یاد کر رہا ہوں ، بنگلہ دیش کے ، اُن لاکھوں بیٹے بیٹیوں کو  ، جنہوں نے اپنے ملک ، اپنی زبان  ، اپنی تہذیب کے لئے  بے شمار  مظالم سہے  ، اپنا خون دیا، اپنی زندگی  داؤ پر لگا دی   ۔ میں آج یاد کر رہا ہوں  ، مُکتی جدھو کے بہادروں کو  ۔ میں آج  یاد کر رہا ہوں شہید  دھیریندرو ناتھ  دتّو کو  ، ماہرِ تعلیم  رفیق الدین احمد کو  ، بھاشا شہید  سلام ، رفیق  ، برکت  ، جبار اور شفیع الر   جی کو   ۔

          میں آج  بھارتی فوج کے  ، اُن  بہادر جوانوں کو بھی  سلام پیش کرتا ہوں  ، جو مکتی جدھو میں بنگلہ دیش کے بھائی بہنوں کے  ساتھ   کھڑے ہوئے تھے ۔ جنہوں نے مکتی جدھو میں  اپنا لہو دیا   ، اپنی قربانی دی  اور آزاد بنگلہ دیش کے   خوابوں کو  پورا کرنے میں  بہت بڑا رول ادا کیا ۔  فیلڈ مارشل سیم مانک شا ،  جنرل ارورا ،  جنرل جیکب  ، لانس نائک  ایلبرٹ   اکاّ  ، گروپ کیپٹن  چندن  سنگھ ،  کیپٹن  موہن نارائن راؤ سامنت ، ایسے بے شمار کتنے ہی   بہار ہیں ، جن کی قیادت اور شجاعت کی کہانیاں  ہمیں تحریک دیتی ہیں  ۔ بنگلہ دیش حکومت  کے ذریعے ، ان بہادروں کی  یاد میں  آشو گونج میں  وار میموریل   وقت کیا گیا ہے ۔

          میں اِس کے لئے  آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں  ۔ مجھے خوشی ہے  کہ مکتی جدھو میں  شامل کئی بھارتی سپاہی  آج  ، خاص طور پر  ، اِس پروگرام میں  میرے ساتھ  موجود بھی ہیں ۔ بنگلہ دیش کے میرے بھائیو ں اور بہنوں ، یہاں کی نو جوان پیڑھی کو     ، میں ایک اور بات یاد کرانا چاہوں گا اور بڑے فخر کے ساتھ یاد دلانا چاہتا ہوں  ۔ بنگلہ دیش کی  آزادی کی  جدو جہد میں  ، اُس جدو جہد میں  شامل ہونا ، میری زندگی  کی بھی   تحریکوں میں سے ایک   تھا ۔   میری عمر 20 – 22 سال رہی ہو گی ۔ جب میں نے اور میرے کئی  ساتھیوں نے  بنگلہ دیش کے لوگوں کی آزادی کے لئے   ستیہ گرہ کیا تھا ۔

          بنگلہ دیش  کی آزادی  کی حمایت میں   تب میں نے  گرفتاری  بھی دی تھی اور جیل جانے   کا موقع بھی  آیا تھا یعنی  بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جتنی  ٹرپ اِدھر تھی ، اُتنی ہی تڑپ اُدھر بھی تھی ۔  یہاں پاکستان کی فوج نے  ، جو  زبردست  جرائم    اور مظالم کئے ، وہ تصویریں   بے چین کرتی تھیں  ، کئی کئی دن تک سونے نہیں  دیتی تھیں ۔ 

گوبندو ہالدر  جی نے کہا تھا –

‘ ایک شاگور روکتیر  بِنی موئے  ،

بانگلار شادھی نوتا آنے جارا ،

آمرا توما دیر  بھولبو  نا ،

آمرا توما دیر  بھول بو نا ، ’

          یعنی ، جنہوں نے اپنے خون کے  دریا سے  بنگلہ دیش  کو آزادی دلائی ، ہم انہیں  بھولیں گے نہیں  ، ہم اُنہیں بھولیں گے نہیں ۔ بوندھو گون ، ایک  بے لگام سرکار اپنے ہی شہریوں کا   قتلِ عام کر رہی تھی  ۔

          اُن کی زبان ، اُن کی آواز ، اُن کی پہچان کو کچل رہی تھی  ۔ ‘ آپریشن سرچ لائٹ  ’ کی اُس بربریت   ، ظلم  و جبر  کے بارے میں دنیا میں  ، اُتنا  تذکرہ نہیں ہوا ہے   ، جتنا  ، اُس کا تذکرہ ہونا چاہیئے تھا ۔  بوندھو گون  ،  اِن سب کے بیچ   یہاں کے لوگوں اور  ہم بھارتیوں کے لئے امید کی کرن تھے  – بونگو بوندھو  شیخ مجیب الرحمٰن ۔

          بونگو بوندھو کے حوصلے نے  ، اُن کی قیادت نے  یہ طے کر دیا تھا کہ کوئی بھی طاقت  بنگلہ دیش کو  غلام نہیں رکھ سکتی ۔ 

          بونگو بوندھو نے اعلان کیا تھا  –

ایبا ریر  شونگرام آمادیر  مکتیر  شونگرام ،

ایبا ریر  شونگرام  شادھی نوتار شونگرام ۔

اِس مرتبہ  جدو جہد ، آزادی کے لئے ہے ، اِس مرتبہ  جدو جہد   آزادی کے لئے ہے ۔ اُن کی قیادت  میں یہاں کے عام انسانی ، مرد ہو یا عورت ہو ، کسان ، نوجوان  ، ٹیچر  ، کاریگر سب ایک ساتھ  آکر  مُکتی واہنی بن گئے  ۔

اور اِس لئے   آج کا یہ موقع  ، مجیب بورشے  ، بونگو بوندھو  کے ویژن  ، اُن کے  اقدار  اور اُن کے  حوصلے کو  یاد کرنے کا بھی دن ہے ۔ یہ وقت   ‘‘چرو بدروہی ’’ کو ، مکتی جدھو کے جذبے کو  دوبارہ یاد کرنے کا وقت ہے ۔   بوندھو گون ، بنگلہ دیش  کی خود مختاری کی جدو جہد کو بھارت کے کونے کونے سے ، ہر پارٹی سے ، سماج کے ہر طبقے سے  حمایت  حاصل تھی ۔

اُس وقت کی وزیر اعظم  محترمہ اندرا گاندھی جی کی  کوشش اور  اُن کے اہم رول کا  نتیجہ ہے  ۔  اسی دور میں  6 دسمبر  ، 1971 ء کو  اٹل بہاری واجپئی جی نے کہا تھا   –  ‘‘ ہم نہ صرف  آزادی کی جدو جہد میں اپنی زندگی  کی  قربانی دینے والوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں   ، لیکن ہم   تاریخ کو ایک نئی سمت دینے کی بھی  کوشش کر رہے ہیں  ۔ آج بنگلہ دیش  میں اپنی آزادی  کے لئے لڑنے  والوں اور بھارتی  جوانوں کا  خون  ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے ۔

یہ خون  ایسے رشتوں کی  تعمیر کرے گا ، جو کسی بھی   دباؤ سے  ٹوٹیں گے نہیں ، جو کسی بھی  سفارتی پالیسی کا شکار  نہیں بنیں گے ’’ ۔ ہمارے  سابق صدرِ جمہوریہ پرنب مکھر جی    ، پرنب دا نے کہا تھا  ، بانگو بوندھو کو   انہوں نے  ایک انتھک  دانشور تھا  ۔ انہوں نے کہا تھا کہ شیخ  مجیب الرحمن کی زندگی  صبر  ، استقلال  اور  خود احتسابی  کی علامت ہے ۔

بوندھو گون ، یہ ایک  خوش قسمتی  ہے کہ بنگلہ دیش کے  آزادی کے  50 سال  اور بھارت  کی آزادی کے 75 سال کا مرحلہ  ، ایک ساتھ ہی آیا ہے ۔ ہم دونوں ہی ملکوں کے لئے ،  21 ویں صدی میں  اگلے 25 سال  کا سفر  بہت ہی اہم ہے ۔ ہماری وراثت بھی مشترک ہے  ، ہماری ترقی بھی مشترک ہے ۔

ہمارے مقاصد بھی  مشترک ہیں ، ہماری چنوتیاں بھی مشترک ہیں ۔ ہمیں یاد رکھنا ہے  کہ تجارت  اور صنعت میں ، جہاں ہمارے لئے   ایک جیسے امکانات ہیں تو  دہشت گردی جیسے  یکساں خطرے بھی ہیں ، جو سوچ اور طاقتیں ، اس  طرح کے  غیر انسانی   واقعات  کو انجام دیتے ہیں  ، وہ اب بھی سرگرم ہیں ۔

ہمیں ، اُن سے ہوشیار بھی رہنا  چاہیئے اور اُن سے مقابلہ کرنے کے لئے  متحد بھی رہنا چاہیئے ۔ ہم دونوں ہی ملکوں کے پاس  جمہوریت کی طاقت ہے  ، آگے بڑھنے کا  واضح خاکہ ہے ۔ بھارت اور بنگلہ دیش  ایک ساتھ مل کر  آگے بڑھیں ، یہ اِس پورے خطے  کی ترقی کے لئے  اُتنا ہی ضروری ہے ۔

اور اِس لئے آج ، بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ہی   ملکوں کی حکومتیں  ، اِس  حساسیت کو سمجھ کر  ، اِس سمت   بھر پور کوشش کر رہی ہیں ۔ ہم نے دکھا دیا ہے کہ آپسی  اعتماد   اور تعاون سے  ہر ایک  مسئلے کا حل ہو سکتا ہے ۔   ہمارا زمینی سرحد  کا معاہدہ بھی اِسی کا گواہ ہے ۔ کورونا کے اِس   بحران میں بھی  دونوں ملکوں کے درمیان  بہترین تال میل رہا ہے ۔

ہم نے سارک کووڈ  فنڈ کے قیام میں تعاون دیا  ، اپنے  انسانی وسائل کی   تربیت میں  تعاون دیا ۔ بھارت کو اِس بات کی  بہت خوشی ہے  کہ میڈ اِن انڈیا  ویکسین بنگلہ دیش کے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے کام آ رہی ہے ۔ مجھے یاد ہیں ، وہ تصویریں ، جب اِس سال 26 جنوری کو  ، بھارت کے یومِ جمہوریہ  پر بنگلہ دیش کی مسلح فوجوں  کی   تینوں شاخوں کے دستوں نے  شونو  ایکٹی   مجیبوریر  تھیکے  کی دُھن پر  پریڈ کی تھی ۔

بھارت اور بنگلہ دیش کا مستقبل ، ہم آہنگی سے پُر  باہمی اعتماد   والے ایسے ہی بے شمار  لمحوں کا  انتظار کر رہا ہے ۔ ساتھیوں ، بھارت – بنگلہ دیش کے رشتوں کو  مضبوط کرنے کے لئے دونوں ہی ملکوں کے نو جوانوں میں بہتر  رابطے کی بھی اُتنی ہی   ضرورت ہے  ۔  بھارت – بنگلہ دیش تعلقات کے  50 سال پورے ہونے کے موقع پر    ، میں بنگلہ دیش کے  50 صنعت کاروں کو  بھارت مدعو کرنا چاہوں گا ۔

یہ بھارت آئیں ، ہمارے اسٹارٹ اَپ اور  اختراع پر مبنی معاشی نظام   سے وابستہ ہوں ، وینچر کیپٹلسٹ سے  ملاقات کریں  ۔ ہم بھی اُن سے سیکھیں گے ، انہیں بھی سیکھنے کا موقع ملے گا ۔ میں اِس کے ساتھ ساتھ  ، بنگلہ دیش کے نو جوانوں کے لئے  شبرنو جینتی   اسکالر شپ کا اعلان  بھی کر رہا ہوں ۔

ساتھیوں ،  بونگو بوندھو شیخ مجیب الرحمن جی نے کہا تھا –

‘‘ بنگلہ دیش  اِتی ہاشے  ، شادِھن  راشٹرو  ، ہِشیبے  ٹیکے  تھاکبے  بانگلاکے دابیئے  راکھتے  پارے ، ایمون کونو شوکتی نیئی  ’’ بنگلہ دیش  خود مختار ہوکر رہے گا ۔

          کسی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کو دبا کر رکھ سکے  ۔  بونگو بوندھو کا یہ   مقصد  بنگلہ دیش کے وجود کی  مخالفت کرنے والوں کے لئے  چیلنج بھی تھا  اور  بنگلہ دیش کی طاقت  پر  اعتماد بھی تھا ۔   مجھے خوشی ہے کہ  شیخ حسینہ جی کی قیادت میں   بنگلہ دیش   دنیا میں اپنا دم خم  دکھا رہا ہے ۔ جن لوگوں کو بنگلہ دیش کی تعمیر پر  اعتراض تھا ، جن لوگوں کو  بنگلہ دیش کے وجود پر  شک تھا  ، انہیں بنگلہ دیش نے  غلط ثابت کیا  ہے ۔

ساتھیو  ،

          ہمارے ساتھ  قاضی  نذر الاسلام   اور گرو دیو    رابندرو ناتھ ٹھاکر   کی یکساں وراثت  کی تحریک ہے ۔ 

          گرو دیو نے کہا تھا  –

کال نائی ،

آما دیر ہاتے ؛

کارا کاری کورے تائی ،

شبے ملے  ؛

دیری  کارو  ناہی ،

شہے  ، کوبھو

          یعنی ، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ہے   ، ہمیں تبدیلی کے لئے آگے بڑھنا ہی ہو گا ، اب ہم اور دیر نہیں کر سکتے ۔  یہ بھارت اور بنگلہ دیش   دونوں پر  یکساں طور سے لاگو ہوتی ہے ۔ 

          اپنے کروڑوں لوگوں کے لئے ، اُن کے مستقبل کے لئے  غریبی کے خلاف  ہماری جنگ کے لئے  ، دہشت کے خلاف لڑائی کے لئے ، ہمارے مقاصد ایک ہیں  ۔ اس لئے ہماری کوشش بھی  اسی طرح  یکجہت ہونی چاہیئے  ۔ مجھے یقین ہے کہ   بھارت  – بنگلہ دیش مل  کر تیز رفتار سے ترقی کریں گے ۔ 

          میں ایک بار پھر اِس خوشی کے موقع پر بنگلہ دیش کے سبھی شہریوں  کو بہت بہت  نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں اور دِل سے آپ سبھی کا  بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

          بھاروت   بنگلہ دیش  موئیتری  چرو جیوی  ہوکھ ۔

          انہی نیک خواہشات کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔

جے بنگلہ !

جے ہند !


نئی دلّی ، 26 مارچ /

نوموشکار !

حضراتِ گرامی  ،

بنگلہ دیش کے  صدرِ جمہوریہ

عبد الحامد جی ،

وزیر اعظم

شیخ حسینہ جی،

وزیر زراعت

ڈاکٹر محمد عبد الرزاق جی ،

میڈم شیخ ریحانہ جی ،

دیگر  ممتاز مہمان  حضرات ،

شونار بنگلہ دیشیر پریو بوندھورا ،

          آپ سبھی کی یہ محبت میری زندگی کے  انمول لمحوں میں سے ایک ہے   ۔ مجھے خوشی ہے  کہ بنگلہ دیش کی ترقی کے سفر کے  ، اِس اہم مرحلے میں آپ نے مجھے بھی شامل کیا ۔ آج بنگلہ دیش کا قومی دن ہے   تو  شادھی – نوتا کی  50 ویں سالگرہ بھی ہے ۔  اسی سال ہی بھارت – بنگلہ دیش دوستی کے 50 سال پورے ہو رہے ہیں ۔  جاتِر پیتا  بانگو بوندھو شیخ مجیب الرحمٰن کی پیدائش کی صدی   کا یہ سال  دونوں  ملکوں کے  تعلقات کو  اور مضبوط کر رہا ہے ۔

حضراتِ گرامی

          صدرِ جمہوریہ  عبد الحامد جی  ، وزیر اعظم شیخ حسینہ جی اور بنگلہ دیش کے  شہریوں کا  ، میں شکریہ   ادا کرتا ہوں ۔ آپ نے اپنے  اِن فخر کے لمحوں میں  ، اِس  خوشی کی گھڑی میں  حصہ دار بننے کے لئے  بھارت کو  پوری محبت کے ساتھ دعوت دی ۔ میں سبھی بھارتیوں کی طرف سے آپ سبھی کو  ، بنگلہ دیش کے سبھی  شہریوں  کو  تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں ۔  میں بونگو بوندھو  شیخ مجیب الرحمٰن  جی  کو    قابل احترام  طریقے سے  خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے بنگلہ دیش   اور یہاں کے لوگوں کے لئے اپنی زندگی  قربان کر دی ۔   ہم   بھارت کے شہریوں کے لئے  فخر کی بات ہے کہ ہمیں  شیخ مجیب الرحمٰن جی کو  گاندھی  امن انعام دینے کا  موقع ملا ۔ میں یہاں ابھی  ، اِس پروگرام میں   شرکت کرنے والے  سبھی فن کاروں کی بھی  ستائش کرتا ہوں ۔ 

          بوندھو گون ، میں آج  یاد کر رہا ہوں ، بنگلہ دیش کے ، اُن لاکھوں بیٹے بیٹیوں کو  ، جنہوں نے اپنے ملک ، اپنی زبان  ، اپنی تہذیب کے لئے  بے شمار  مظالم سہے  ، اپنا خون دیا، اپنی زندگی  داؤ پر لگا دی   ۔ میں آج یاد کر رہا ہوں  ، مُکتی جدھو کے بہادروں کو  ۔ میں آج  یاد کر رہا ہوں شہید  دھیریندرو ناتھ  دتّو کو  ، ماہرِ تعلیم  رفیق الدین احمد کو  ، بھاشا شہید  سلام ، رفیق  ، برکت  ، جبار اور شفیع الر   جی کو   ۔

          میں آج  بھارتی فوج کے  ، اُن  بہادر جوانوں کو بھی  سلام پیش کرتا ہوں  ، جو مکتی جدھو میں بنگلہ دیش کے بھائی بہنوں کے  ساتھ   کھڑے ہوئے تھے ۔ جنہوں نے مکتی جدھو میں  اپنا لہو دیا   ، اپنی قربانی دی  اور آزاد بنگلہ دیش کے   خوابوں کو  پورا کرنے میں  بہت بڑا رول ادا کیا ۔  فیلڈ مارشل سیم مانک شا ،  جنرل ارورا ،  جنرل جیکب  ، لانس نائک  ایلبرٹ   اکاّ  ، گروپ کیپٹن  چندن  سنگھ ،  کیپٹن  موہن نارائن راؤ سامنت ، ایسے بے شمار کتنے ہی   بہار ہیں ، جن کی قیادت اور شجاعت کی کہانیاں  ہمیں تحریک دیتی ہیں  ۔ بنگلہ دیش حکومت  کے ذریعے ، ان بہادروں کی  یاد میں  آشو گونج میں  وار میموریل   وقت کیا گیا ہے ۔

          میں اِس کے لئے  آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں  ۔ مجھے خوشی ہے  کہ مکتی جدھو میں  شامل کئی بھارتی سپاہی  آج  ، خاص طور پر  ، اِس پروگرام میں  میرے ساتھ  موجود بھی ہیں ۔ بنگلہ دیش کے میرے بھائیو ں اور بہنوں ، یہاں کی نو جوان پیڑھی کو     ، میں ایک اور بات یاد کرانا چاہوں گا اور بڑے فخر کے ساتھ یاد دلانا چاہتا ہوں  ۔ بنگلہ دیش کی  آزادی کی  جدو جہد میں  ، اُس جدو جہد میں  شامل ہونا ، میری زندگی  کی بھی   تحریکوں میں سے ایک   تھا ۔   میری عمر 20 – 22 سال رہی ہو گی ۔ جب میں نے اور میرے کئی  ساتھیوں نے  بنگلہ دیش کے لوگوں کی آزادی کے لئے   ستیہ گرہ کیا تھا ۔

          بنگلہ دیش  کی آزادی  کی حمایت میں   تب میں نے  گرفتاری  بھی دی تھی اور جیل جانے   کا موقع بھی  آیا تھا یعنی  بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جتنی  ٹرپ اِدھر تھی ، اُتنی ہی تڑپ اُدھر بھی تھی ۔  یہاں پاکستان کی فوج نے  ، جو  زبردست  جرائم    اور مظالم کئے ، وہ تصویریں   بے چین کرتی تھیں  ، کئی کئی دن تک سونے نہیں  دیتی تھیں ۔ 

گوبندو ہالدر  جی نے کہا تھا –

‘ ایک شاگور روکتیر  بِنی موئے  ،

بانگلار شادھی نوتا آنے جارا ،

آمرا توما دیر  بھولبو  نا ،

آمرا توما دیر  بھول بو نا ، ’

          یعنی ، جنہوں نے اپنے خون کے  دریا سے  بنگلہ دیش  کو آزادی دلائی ، ہم انہیں  بھولیں گے نہیں  ، ہم اُنہیں بھولیں گے نہیں ۔ بوندھو گون ، ایک  بے لگام سرکار اپنے ہی شہریوں کا   قتلِ عام کر رہی تھی  ۔

          اُن کی زبان ، اُن کی آواز ، اُن کی پہچان کو کچل رہی تھی  ۔ ‘ آپریشن سرچ لائٹ  ’ کی اُس بربریت   ، ظلم  و جبر  کے بارے میں دنیا میں  ، اُتنا  تذکرہ نہیں ہوا ہے   ، جتنا  ، اُس کا تذکرہ ہونا چاہیئے تھا ۔  بوندھو گون  ،  اِن سب کے بیچ   یہاں کے لوگوں اور  ہم بھارتیوں کے لئے امید کی کرن تھے  – بونگو بوندھو  شیخ مجیب الرحمٰن ۔

          بونگو بوندھو کے حوصلے نے  ، اُن کی قیادت نے  یہ طے کر دیا تھا کہ کوئی بھی طاقت  بنگلہ دیش کو  غلام نہیں رکھ سکتی ۔ 

          بونگو بوندھو نے اعلان کیا تھا  –

ایبا ریر  شونگرام آمادیر  مکتیر  شونگرام ،

ایبا ریر  شونگرام  شادھی نوتار شونگرام ۔

اِس مرتبہ  جدو جہد ، آزادی کے لئے ہے ، اِس مرتبہ  جدو جہد   آزادی کے لئے ہے ۔ اُن کی قیادت  میں یہاں کے عام انسانی ، مرد ہو یا عورت ہو ، کسان ، نوجوان  ، ٹیچر  ، کاریگر سب ایک ساتھ  آکر  مُکتی واہنی بن گئے  ۔

اور اِس لئے   آج کا یہ موقع  ، مجیب بورشے  ، بونگو بوندھو  کے ویژن  ، اُن کے  اقدار  اور اُن کے  حوصلے کو  یاد کرنے کا بھی دن ہے ۔ یہ وقت   ‘‘چرو بدروہی ’’ کو ، مکتی جدھو کے جذبے کو  دوبارہ یاد کرنے کا وقت ہے ۔   بوندھو گون ، بنگلہ دیش  کی خود مختاری کی جدو جہد کو بھارت کے کونے کونے سے ، ہر پارٹی سے ، سماج کے ہر طبقے سے  حمایت  حاصل تھی ۔

اُس وقت کی وزیر اعظم  محترمہ اندرا گاندھی جی کی  کوشش اور  اُن کے اہم رول کا  نتیجہ ہے  ۔  اسی دور میں  6 دسمبر  ، 1971 ء کو  اٹل بہاری واجپئی جی نے کہا تھا   –  ‘‘ ہم نہ صرف  آزادی کی جدو جہد میں اپنی زندگی  کی  قربانی دینے والوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں   ، لیکن ہم   تاریخ کو ایک نئی سمت دینے کی بھی  کوشش کر رہے ہیں  ۔ آج بنگلہ دیش  میں اپنی آزادی  کے لئے لڑنے  والوں اور بھارتی  جوانوں کا  خون  ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے ۔

یہ خون  ایسے رشتوں کی  تعمیر کرے گا ، جو کسی بھی   دباؤ سے  ٹوٹیں گے نہیں ، جو کسی بھی  سفارتی پالیسی کا شکار  نہیں بنیں گے ’’ ۔ ہمارے  سابق صدرِ جمہوریہ پرنب مکھر جی    ، پرنب دا نے کہا تھا  ، بانگو بوندھو کو   انہوں نے  ایک انتھک  دانشور تھا  ۔ انہوں نے کہا تھا کہ شیخ  مجیب الرحمن کی زندگی  صبر  ، استقلال  اور  خود احتسابی  کی علامت ہے ۔

بوندھو گون ، یہ ایک  خوش قسمتی  ہے کہ بنگلہ دیش کے  آزادی کے  50 سال  اور بھارت  کی آزادی کے 75 سال کا مرحلہ  ، ایک ساتھ ہی آیا ہے ۔ ہم دونوں ہی ملکوں کے لئے ،  21 ویں صدی میں  اگلے 25 سال  کا سفر  بہت ہی اہم ہے ۔ ہماری وراثت بھی مشترک ہے  ، ہماری ترقی بھی مشترک ہے ۔

ہمارے مقاصد بھی  مشترک ہیں ، ہماری چنوتیاں بھی مشترک ہیں ۔ ہمیں یاد رکھنا ہے  کہ تجارت  اور صنعت میں ، جہاں ہمارے لئے   ایک جیسے امکانات ہیں تو  دہشت گردی جیسے  یکساں خطرے بھی ہیں ، جو سوچ اور طاقتیں ، اس  طرح کے  غیر انسانی   واقعات  کو انجام دیتے ہیں  ، وہ اب بھی سرگرم ہیں ۔

ہمیں ، اُن سے ہوشیار بھی رہنا  چاہیئے اور اُن سے مقابلہ کرنے کے لئے  متحد بھی رہنا چاہیئے ۔ ہم دونوں ہی ملکوں کے پاس  جمہوریت کی طاقت ہے  ، آگے بڑھنے کا  واضح خاکہ ہے ۔ بھارت اور بنگلہ دیش  ایک ساتھ مل کر  آگے بڑھیں ، یہ اِس پورے خطے  کی ترقی کے لئے  اُتنا ہی ضروری ہے ۔

اور اِس لئے آج ، بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ہی   ملکوں کی حکومتیں  ، اِس  حساسیت کو سمجھ کر  ، اِس سمت   بھر پور کوشش کر رہی ہیں ۔ ہم نے دکھا دیا ہے کہ آپسی  اعتماد   اور تعاون سے  ہر ایک  مسئلے کا حل ہو سکتا ہے ۔   ہمارا زمینی سرحد  کا معاہدہ بھی اِسی کا گواہ ہے ۔ کورونا کے اِس   بحران میں بھی  دونوں ملکوں کے درمیان  بہترین تال میل رہا ہے ۔

ہم نے سارک کووڈ  فنڈ کے قیام میں تعاون دیا  ، اپنے  انسانی وسائل کی   تربیت میں  تعاون دیا ۔ بھارت کو اِس بات کی  بہت خوشی ہے  کہ میڈ اِن انڈیا  ویکسین بنگلہ دیش کے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے کام آ رہی ہے ۔ مجھے یاد ہیں ، وہ تصویریں ، جب اِس سال 26 جنوری کو  ، بھارت کے یومِ جمہوریہ  پر بنگلہ دیش کی مسلح فوجوں  کی   تینوں شاخوں کے دستوں نے  شونو  ایکٹی   مجیبوریر  تھیکے  کی دُھن پر  پریڈ کی تھی ۔

بھارت اور بنگلہ دیش کا مستقبل ، ہم آہنگی سے پُر  باہمی اعتماد   والے ایسے ہی بے شمار  لمحوں کا  انتظار کر رہا ہے ۔ ساتھیوں ، بھارت – بنگلہ دیش کے رشتوں کو  مضبوط کرنے کے لئے دونوں ہی ملکوں کے نو جوانوں میں بہتر  رابطے کی بھی اُتنی ہی   ضرورت ہے  ۔  بھارت – بنگلہ دیش تعلقات کے  50 سال پورے ہونے کے موقع پر    ، میں بنگلہ دیش کے  50 صنعت کاروں کو  بھارت مدعو کرنا چاہوں گا ۔

یہ بھارت آئیں ، ہمارے اسٹارٹ اَپ اور  اختراع پر مبنی معاشی نظام   سے وابستہ ہوں ، وینچر کیپٹلسٹ سے  ملاقات کریں  ۔ ہم بھی اُن سے سیکھیں گے ، انہیں بھی سیکھنے کا موقع ملے گا ۔ میں اِس کے ساتھ ساتھ  ، بنگلہ دیش کے نو جوانوں کے لئے  شبرنو جینتی   اسکالر شپ کا اعلان  بھی کر رہا ہوں ۔

ساتھیوں ،  بونگو بوندھو شیخ مجیب الرحمن جی نے کہا تھا –

‘‘ بنگلہ دیش  اِتی ہاشے  ، شادِھن  راشٹرو  ، ہِشیبے  ٹیکے  تھاکبے  بانگلاکے دابیئے  راکھتے  پارے ، ایمون کونو شوکتی نیئی  ’’ بنگلہ دیش  خود مختار ہوکر رہے گا ۔

          کسی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کو دبا کر رکھ سکے  ۔  بونگو بوندھو کا یہ   مقصد  بنگلہ دیش کے وجود کی  مخالفت کرنے والوں کے لئے  چیلنج بھی تھا  اور  بنگلہ دیش کی طاقت  پر  اعتماد بھی تھا ۔   مجھے خوشی ہے کہ  شیخ حسینہ جی کی قیادت میں   بنگلہ دیش   دنیا میں اپنا دم خم  دکھا رہا ہے ۔ جن لوگوں کو بنگلہ دیش کی تعمیر پر  اعتراض تھا ، جن لوگوں کو  بنگلہ دیش کے وجود پر  شک تھا  ، انہیں بنگلہ دیش نے  غلط ثابت کیا  ہے ۔

ساتھیو  ،

          ہمارے ساتھ  قاضی  نذر الاسلام   اور گرو دیو    رابندرو ناتھ ٹھاکر   کی یکساں وراثت  کی تحریک ہے ۔ 

          گرو دیو نے کہا تھا  –

کال نائی ،

آما دیر ہاتے ؛

کارا کاری کورے تائی ،

شبے ملے  ؛

دیری  کارو  ناہی ،

شہے  ، کوبھو

          یعنی ، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت نہیں ہے   ، ہمیں تبدیلی کے لئے آگے بڑھنا ہی ہو گا ، اب ہم اور دیر نہیں کر سکتے ۔  یہ بھارت اور بنگلہ دیش   دونوں پر  یکساں طور سے لاگو ہوتی ہے ۔ 

          اپنے کروڑوں لوگوں کے لئے ، اُن کے مستقبل کے لئے  غریبی کے خلاف  ہماری جنگ کے لئے  ، دہشت کے خلاف لڑائی کے لئے ، ہمارے مقاصد ایک ہیں  ۔ اس لئے ہماری کوشش بھی  اسی طرح  یکجہت ہونی چاہیئے  ۔ مجھے یقین ہے کہ   بھارت  – بنگلہ دیش مل  کر تیز رفتار سے ترقی کریں گے ۔ 

          میں ایک بار پھر اِس خوشی کے موقع پر بنگلہ دیش کے سبھی شہریوں  کو بہت بہت  نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں اور دِل سے آپ سبھی کا  بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

          بھاروت   بنگلہ دیش  موئیتری  چرو جیوی  ہوکھ ۔

          انہی نیک خواہشات کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔

جے بنگلہ !

جے ہند !

Recommended