کابل ، 10 ستمبر
طالبان نے ہزاروں افراد کو افغانستان کے صوبہ پنجشیر سے باہرنکال دیا ہے۔ افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ کے ترجمان علی نظاری نے یہ بات جمعہ کو کہی ۔ انہوں نے ٹویٹ کر کے کہا ’’طالبان نے پنجشیر سے ہزاروں لوگوں کو بھگا دیا ہے ۔ وہ لوگ نسل کشی کر رہے ہیں اور دنیا ابھی اس صورتحال کو دیکھ رہی ہے اور نظر انداز کر رہی ہے‘‘۔ انہوں نے عالمی برادری سے افغانستان میں جرائم کو روکنے کی بھی اپیل کی ۔
قابل ذکر ہے کہ طالبان نے پیر کے روز مزاحمت کے آخری گڑھ صوبہ پنجشیر پر بھی قبضہ کر لیا۔ وہیں طالبان نے منگل کے روز ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا جس میں بین الاقوامی برادری کی اپیل کے باوجود غیر طالبان ارکان اور خواتین کو شامل نہیں کیا گیا ۔
واضح ہو کہ طالبان کے لیے پنجشیر ہی میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ پنجشیر میں طالبان کی طرف سے زیادتیوں کی ایک طویل کہانی ہے جس میں نسل کشی کی بات بھی سامنے آرہی ہے۔ طالبان کی نئی کابینہ میں زیادہ تر عہدہ داران کا تعلق عالمی دہشت گردوں سے ہے۔ ان میں زیادہ تر کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں سب سے آگے ہے،اس تناظر میں یہ طے کرپانا کہ افغانستان میں نئی حکومت کام کرپائے گی یا نہیں؟ ایک یہ قضیہ ہے۔ تاہم پنجشیر میں طالبان کی راہ پانا اب بھی بہت مشکل ہے۔ عالمی دباؤ میں طالبان کچھ اچھے اور نئے بیانات دے رہے ہیں لیکن علی نظاری کے مطابق طالبان اپنی پرانی روش پر اب بھی قائم ہے، اسی روش کی وجہ سے ہزاروں افراد کو پنجشیر سے نکالا جا رہا ہے جو کہ کسی بھی صورت میں طالبان حکومت کے لیے بہتر نہیں ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نئی کابینہ بنتے ہی عجیب و غریب فرمان جاری ہو رہے ہیں جس سے پوری دنیا تشویش میں کہ آخر افغانستان میں خواتین اور دیگر لوگوں کا کیا ہوگا؟ کل ہی کی خبر ہے کہ ایک سینئر طالبان عہدیدار نے کہا ہے کہ خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔آسٹریلیا کی ایس بی ایس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کی ثقافتی کمیٹی کے نائب سربراہ احمد اللہ واثق نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کئی بار خواتین کرکٹ کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہو جہاں چہرہ اور جسم ڈھانپا نہ جائے اور اسلام، خواتین کو ایسا دکھانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ یہ میڈیا کا دور ہے اور وہاں تصاویر اور ویڈیوز ہوں گی اور پھر لوگ اسے دیکھیں گے۔ اسلام اور امارت اسلامیہ خواتین کو کرکٹ کھیلنے یا اس طرح کے کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی۔