امریکا اور افغان طالبان تحریک کے درمیان دو روز جاری مذاکرات کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے بات چیت کو واضح اور پیشہ ورانہ قرار دیا۔طالبان کے اعلان کے مطابق امریکا افغانستان کے لیے انسانی امداد پیش کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے تاہم واشنگٹن نے ملک کے نئے حکمرانوں کی حیثیت سے طالبان کو سیاسی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔افغانستان کو اس وقت شدید غربت کا سامنا ہے اور ملک اقتصادی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
طالبان تحریک کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے نیوز ایجنسیAP کو بتایا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی وفد کو باور کرایا ہے کہ طالبان اس موقف پر کاربند ہیں کہ افغان اراضی دیگر ممالک پر شدت پسندوں کے حملوں کا مرکز نہ بنے۔ ترجمان نے یہ موقف ہفتے اور اتوار کے روز دوحہ میں ہونے والی بات چیت میں پیش کیا۔
وزیر خارجہ نے امریکی وفد سے مطالبہ کیا کہ افغان مرکزی بینک کے زر مبادلہ پر عائد پابندی اٹھائی جائے۔مزید یہ کہ فریقین نے افغانستان اور امریکا کے درمیان "نیا باب کھولنے" پر بھی بات چیت کی۔دوسری جانب امریکا نے واضح کیا ہے کہ یہ بات چیت کسی بھی طور طالبان کو تسلیم کرنے کا مقدمہ نہیں تھی۔
امریکی وزارت خارجہ نے پیر کے روز جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ سینئر امریکی ذمے داران اور طالبان کے بیچ پہلے براہ راست اجلاس میں ہونے والی بات چیت "کْھلی اور پیشہ ورانہ" نوعیت کی رہی۔ امریکی وفد نے ایک بار پھر زور دیا کہ طالبان کی حکومت صرف اقوال کی نہیں بلکہ افعال کی مرہون منت ہو گی۔وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کے مطابق امریکی وفد نے جن امور پر توجہ مرکوز رکھی ان میں امن و امان، دہشت گردی، امریکیوں سمیت غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کے لیے محفوظ راستے اور انسانی حقوق سے متعلق اندیشے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں افغان معاشرے کے تمام امور میں خواتین اور لڑکیوں کی سنجیدہ شرکت پر بھی زور دیا گیا۔یہ بات واضح نہیں کہ مذاکرات میں کسی بھی سمجھوتے پر اتفاق رائے ہوا یا نہیں۔یاد رہے کہ اگست کے وسط میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے امریکا نے اپنی اولین ترجیح یہ وضع کی ہے کہ طالبان اس عزم کی پاسداری کریں کہ وہ افغانستان کو ایک بار پھر القاعدہ تنظیم یا دیگر شدت پسندوں کی آماج گاہ نہیں بننے دیں گے۔عالمی برادری طالبان کو آئینی حیثیت دیے بغیر ان کے ساتھ معاملے کی نوعیت کا تعین کرنے کے واسطے کوشاں ہے تا کہ افغانستان کے لیے انسانی امداد کو یقینی بنایا جا سکے۔
امریکہ اور برطانیہ کا اپنے شہریوں کوکابل میں ہوٹل سے دور رہنے کا انتباہ
امریکا اور برطانیہ نے اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ افغان دارالحکومت میں واقع ہوٹلوں بالخصوص معروف ہوٹل ’سرینا‘ سے دور ہیں۔پیر کے روز جاری ایک بیان میں امریکی وزارت خارجہ نے ہدایت کی ہے کہ سرینا ہوٹل میں یا اس کے نزدیک موجود امریکی شہری فوری طور پر کوچ کر جائیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں سیکورٹی خطرات ہیں۔
ادھر برطانوی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان سرزمین پر بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر ہوٹلوں بالخصوص کابل کے سرینا ہوٹل میں نہ رہا جائے۔واضح رہے کہ سرینا ہوٹل کا شمار افغان دارالحکومت کے مشہور ترین ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ اگست کے وسط میں کابل کے طالبان کے ہاتھوں میں آنے سے قبل یہ ہوٹل غیر ملکیوں کے بیچ وسیع پیمانے پر مقبول تھا۔
گذشتہ برسوں کے دوران میں یہ ہوٹل دو مرتبہ شدت پسندوں کے حملوں کا ہدف بنا۔واضح رہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے کوچ سے چند روز قبل دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے اور ایک ہوٹل کے نزدیک دہرے خود کش دھماکوں کے نتیجے میں درجنوں شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ حملے میں 13 امریکی فوجی بھی مارے گئے تھے۔ دھماکوں کی ذمے داری داعش تنظیم نے قبول کی تھی۔