واشنگٹن،08 جون (انڈیا نیرٹیو)
امریکی مرکزی کمان کے کمانڈر جنرل کینتھ میکنزی کا کہنا ہے کہ خطے میں امریکی فوج کی موجودگی کا مقصد ایران کو اس کی شرپسند سرگرمیاں جاری رکھنے سے روکنا ہے۔ میکنزی کے مطابق ایران اب بھی مشرق وسطی کے امن و استحکام کے لیے اہم ترین خطرہ ہے۔ منگل کو علی الصبح جاری بیان میں امریکی کمانڈر نے مزید کہا کہ حوثیوں کو یمن کا بحران ختم کی کوئی خواہش نہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ سعودی عرب کے اپنے دفاع میں اس کی مدد کرنا امریکی کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کل پیر کے روز یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی ایران کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ امریکی کمانڈر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسے کا کہنا ہے کہ جوہری تنصیبات کی نگرانی سے متعلق ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان معاہدے کی توسیع مشکل ہے۔ گروسی نے ایران کی جانب سے اعلیٰ تناسب سے یورینیم کی افزودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔
امریکی وزیر خارجہ کو ایران جوہری معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق شک
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے کہا ہے کہ ایران فی الواقع 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کے تمام تقاضوں کی پاسداری کرےگا،یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے سوموار کو ایک بیان میں کہا:’’فی الوقت یہ معاملہ ابھی تک غیرواضح ہے کہ ایران جوہری سمجھوتے کی پاسداری کے لیے درکاراقدامات پر آمادہ ہے یا بھی نہیں۔‘‘ وہ امریکی کانگریس کے ارکان سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خارجہ) کی خارجہ پالیسی سے متعلق حکمتِ عملی اور بجٹ درخواست کے بارے میں گفتگو کررہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’’اس وقت تو ہم جوہری سمجھوتے کی پاسداری کے مرحلے میں بھی نہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔‘‘ ٹونی بلینکن نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’اگر ایران نے جوہری ڈیل کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا تواس سمجھوتے کے خاتمے کا وقت چند ماہ تک محدود ہوکررہ جائے گا۔‘‘
صدر جوبائیڈن کے جنوری میں برسراقتدارآنے کے بعد سے امریکا اور ایران کے سفارت کاروں کے درمیان جوہری سمجھوتے کی بحالی اور اس کی تمام شرائط کی پاسداری سے متعلق ویانا میں مذاکرات کے چھے بالواسطہ ادوار ہوچکے ہیں۔یورپی یونین ، چین اور روس ان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان بہت سے متنازع امور پر ابھی تک اتفاق نہیں ہوسکا ہے، ویانامذاکرات میں امریکا کی جوہری سمجھوتے میں دوبارہ واپسی اور ایران کے لیے مجوزہ اقدامات پر غورکیا جارہا ہے۔امریکا اور عالمی طاقتیں ایران سے پابندیوں کے خاتمے کے لیے جوہری سمجھوتے کی مکمل پاسداری کا تقاضا کررہی ہیں۔ ایران 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی اور اس کی شرائط کی پاسداری سے قبل امریکا سے تمام اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہا ہے۔
ایک اعلیٰ مذاکرات کار نے اگلے روز کہا تھا کہ امریکا نے ایران کے خلاف عاید کردہ بہت سی پابندیوں کو ختم کرنے پرآمادگی ظاہر کی ہے لیکن تہران مزید اقدامات کا مطالبہ کررہا ہے۔ امریکی صدربائیڈن کا کہنا ہے کہ ’’ایران ان مذاکرات میں سنجیدگی سے حصہ تو لے رہا ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ تہران سمجھوتے کی بحالی کی صورت میں اس کے تقاضوں کی کس طرح پاسداری کرے گا۔‘‘ واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 8مئی 2018ء کو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پردستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اسی سال نومبر میں ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔
اس کے ردعمل میں ایران نے جوہری سمجھوتے کی شرائط کی مرحلہ وار پاسداری نہ کرنے کااعلان کیا تھا اور اس نے یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کرنا شروع کردیا تھا۔ یورپی ممالک ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کی صرف اصل شکل میں بحالی چاہتے ہیں اور وہ ایران کی مشرقِ اوسط کے خطے میں دوسری سرگرمیوں پرقدغنیں لگانے پر زور نہیں دے رہے ہیں جبکہ امریکا خطے میں ایران کے تخریبی کردار کا بھی خاتمہ چاہتا ہے اور وہ اس سے متعلق بعض شقوں کا اضافہ چاہتا ہے۔