Urdu News

مذہب اسلام میں انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے: ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ

مسلم ورلڈ لیگ کے جنرل سکریٹری  ڈاکٹر محمد بن  عبدالکریم  العسیٰ

 داعش  اورالقاعدہ جیسی تنظیموں نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے

 ہندوستان اور سعودی عرب  دو عظیم  دوست ملک  ہیں۔ڈاکٹر  محمد  بن  عبدالکریم  العیسیٰ

 بھارت کے پانچ   روزہ پردورہ  پرآئے مسلم ورلڈ لیگ کے جنرل سکریٹری  ڈاکٹر محمد بن  عبدالکریم  العسیٰ نے بھارت کی جمہوریت اور  بھارتی  آئین کی بھرپور  تعریف کی ہے۔ انہوں نے   بھارت  کی مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ  اس کے  بقا  باہمی کی  طویل  تاریخ  کی بھی ستائش  کی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ بھارت   دنیا  بھر کو امن   کا  پیغام  بھیج سکتا ہے۔ انہوں نے  داعش  اور القاعدہ جیسی انتہا پسند تنظیموں  کی مذمت  کرتے  ہوئے  یہ بھی کہاکہ  مذہب اسلام میں دہشت گردی    کے لیے  جگہ  نہیں ہے۔  نئی دہلی میں  اپنے قیام کے دوران  انہوں نے   انگلش، ہندی اور اردو  زبان کے  آن  لائن پورٹل’آواز ۔ دی وائس‘ کو دیئے  گئے ایک  خصوصی انٹرویو میں مذکورہ کے علاوہ  اہم  موضوعات پر  کھل   کر اپنی رائے  دی۔ آواز ۔ دی وائس  کو دیئے    انٹرویو کے  اہم    اقتسابات ’’انڈیا نیرٹیو‘‘  کے قارئین     کی خدمت  میں  پیش  ہیں۔

 سوال: بھارت  کے  تنوع  اورمہمان   نواز کے بارے میں آپ کے  خیالات  ہیں؟

 جواب: بھارت میں آکر مجھے  بہت  خوشی ہوئی ہے۔  میں  نے  بھارت کی ثقافت، روایت، تنوع کے  بارے میں   بہت کچھ  سنا تھا اور   میں  اس کا تجربہ  کرکے  بے حد خوش ہوں۔  میں  نے بھارت کی  مذہبی، سیاسی اور روحانی  لیڈرشپ   سے ملاقات کی۔ بھارتی جمہوریت  کی خوبصورتی  یہ  ہے کہ  یہاں  بلا  تفریق  مذہب و   ملت  اور رنگ  و نسل  ہر شہری کو مساوی  حقوق حاصل  ہیں۔ بھارتی  آئین اپنے   تمام شہریوں  کو مساوی حقوق کی گارنٹی  دیتا ہے۔ مجھے یہاں  آکر  بہت  خوشی  ہوئی ہے۔

 سوال: عالی جناب  ہندوستان کے سعودی عرب کے ساتھ  تہدیبی اورتاریخی رشتے رہے ہیں،  وزیراعظم نریندر مودی نے  بھی عرب دنیا کے ساتھ  بہتر تعلقات   کی ضرورت پر زور دیا ہے، اس کے علاوہ جی۔ 20 کی صدارت بھی  بھارت کے لیے عرب  دنیا کے ساتھ  اپنے تعلقات  کو  مضبوط بنانے کا موقع  لےکرآئی ہے۔ ایسے  میں دونوں  ملکوں کے درمیان   بڑھتے ہوئے  رشتوں کے بارے  میں آپ   کیا سوچتے ہیں؟

 جواب: ظاہر سی  بات ہے، اس سوال کا جواب میں ایک سعودی شہری  کے طور پر دوں گا۔  ایک سعودی کے   طورپر  میں  ہندوستان کے ساتھ  ہمارے  مضبوط   تعلقات کا اعادہ کرتا ہوں۔  ہمارے  ہندوستان کےساتھ  تاریخی رشتے  ہیں۔  سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان  بڑھتے ہوئے دوستانہ  تعلقات  کو  ہم دیکھ  رہے ہیں۔ ایک سعودی  شہری  کے طور پردونوں  ملکوں کے  بیچ بڑھتی  ہوئی نزدیکیوں کو لے کرمیں بہت خوش ہوں۔

سوال:عالی جناب 2.7 ملین  ہندوستانی    سعودی عرب میں رہتے ہیں جن  کا تعلق  مختلف  مذاہب  اور نسل  سے ہے۔  سعودی میں ہندوستانیوں کی  اتنی بڑی آبادی   کے لحاظ  سے  دونوں ملکوں کے درمیان  رشتوں میں ہندوستانیوں   کے  رول  کو   آپ کس  طرح سے دیکھتے  ہیں؟

 جواب: سعودی عرب میں رہنے والے ہندوستانیوں کا  یہاں  خصوصی مقام  ہے۔ ہندوستانیوں نے سعودی عربیہ میں تمام  شعبوں میں اہم  رول ادا کیا ہے۔ ہمیں  ہندوستانیوں  پرپورا بھروسہ  ہے۔  ہم  ان کی غیر معمولی صلاحیت  کا اعتراف کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان   تعلقات  کو مضبوط بنانے  کے لیے ہندوستانی  شہریوں  کا   بہت اہم  رول  ہے ۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔

 سوال: عالی جناب  سعودی عرب نے  خواتین  کے تفویض اختیارات کے لیے بہت کام کیا ہے۔ مبارک   قرآن بھی  خواتین  کو مردوں کی  طرح  مساوی  حقوق کی   یقین دہانی کراتا ہے۔  مسلم  ورلڈ  لیگ کے طور پر اسلامی  دنیا میں خواتین کے  تفویض اختیارات  کے لیے  آپ  نے  جو کام کئے  ہیں اس کے بارے میں بتائیں؟

  جواب: سعودی عرب میں خواتین کو تفویض  اختیارات محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ اسلام خواتین کو  مساوی حقوق  دیتا ہے۔ جہاں  تک  خواتین  کو تفویض  اختیارات کی  بات آتی ہے توسعودی عرب  ان  ترقی  یافتہ  ممالک  میں سے  ایک  ہے جو    خواتین کو مساوی   حقوق  فراہم کراتا  ہے۔ سعودی  عرب   میں خواتین کے  حقوق   کے  تعلق  سے کوئی  امتیازنہیں برتا جاتا ہے۔ جو کوئی بھی سعودی  عرب  میں آتا ہے وہ   زمین پر  دیکھ   سکتا  ہے کہ   سعودی عرب میں  خواتین کو    مساوی  حقوق دیئے  گئے ہیں۔

سوال: اسلام کے  فروغ میں عصر حاضر  میں  مذہبی  رہنماؤں اور علما  کے   رول   کے بارے میں  آپ کے کیا  تاثرات ہیں؟

 جواب: اسلام کا افق بہت  وسیع ہے، اسلامک  طرز حکمرانی  مقامی  سوچ،  ثقافت، جگہ، وقت ،  عوام اور جغرافیائی کا احترام کرتاہے۔  اسلام  بہت ہی  لچیلا  مذہب  ہے اور یہ جدیدیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بلا  تفریق  و مذہب وملت اعضا کا  عطیہ ایک عظیم  انسانی  کاز ہے۔ انسان  کو اخلاقی طور پر  مکمل  بنانا  پیغمبر محمد کا  کلیدی مشن ہے۔ اسلام  دوسرے مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ اسلام  بھائی  چارے  کو  فروغ دیتا ہے۔اسلام بقائے باہمی  کو بڑھاوا دیتا ہے۔

 سوال: عالی جناب مسلم  ورلڈ لیگ کے سکریٹری جنرل کے طور پر آپ  کے کام عصری اقدار  کو فروغ دینا ہے۔ اس کے باوجود کثیر المذاہب سماج میں تبدیلی مذہب، کاوسلاٹرنگ جیسی  مثال دیکھنے  کو ملتی ہے جو سماج  میں اختلافات  پیدا کرتے  ہیں۔ اس مدعے کو حل  کرنے میں خاص  طور پرمسلم نوجوانوں   کا  کیا رول ہے؟

 جواب: اسلام  مختلف  اظہار رائے  کا  احترام کرتاہے۔ مذہب  ہر شخص کاذاتی   مدعا ہے۔ اسلام  ہرمذہب میں  ہم آہنگی پیدا  کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  م  ہر ملک   کے  قومی   قانون  کے احترام کا اعادہ کرتے ہیں۔

سوال: عالی جناب ، آج ہم  ٹیکنالوجیکل  دور میں رہ رہے   ہیں جہاں نئی  نئی ٹکنالوجی جیسے    مصنوعی ذہانت ، روبوٹک  جیسی ٹکنالوجی آرہی ہیں،  آج کوئی بھی  مسلم   نوجوان  اس  بات   سے انکار نہیں کرسکتا  ہے کہ  ٹیکنالوجی آج  کتنی   ضروری ہے۔ آج  ضرورت  اس  بات کی کہ ٹکنالوجی پرمبنی جدید  تعلیم  کو   دارالعلوم  اور مدرسوں  کے  کیریکولم کے ساتھ  جوڑا جائے۔ اس  کے بارے میں آپ کے  خیالات  ہیں؟

 جواب: ٹکنالوجی عصرحاضر کی ضرورت بن چکی ہے  اس لئے  ہمارے مدارس کو بھی  چاہیے کہ وہ ہرعلم اورٹکنالوجی کو اپنا ئے جو انسانی  فلاح  و بہبود  کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو  جدید سوچ کو فروغ  دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو  مصنوعی ذہانت  جیسی  نئی ٹکنالوجی  کی  تعلیم دینے کی ضرورت ہے، اگرمسلم ممالک  نے ایسا  نہیں کیا وہ دیگرممالک کا مقابلہ   کرنے  کا قابل نہیں  رہیں گے۔

 سوال: عالی جناب آپ  نے  کئی  مرتبہ کہا ہے کہ مسلمانوں کودیگر ممالک کے  قوانین کا احترام کرنا چاہیے لیکن  داعش  جیسی  تنظیموں نے  تہذیبوں کے درمیان ٹکراو   پیدا کرنے کی  کوشش  کی ہے۔ سعودی عرب  نے اس چنوتی    کو ابھی  تک  کیسے نپٹا ہے اورمسلم  تنظیموں کا اس  طرح  کے  نظریہ کا  بیخ   کرنی میں  کیا  رول  ہونا  چاہیےاورمکہ  چارٹر کے بارے  میں بھی مختصر  بتائیں؟

 جواب: سعودی عرب  اس کی طرح  انتہا  پسندی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ دہشت  گردی کے خلاف   سعودی  عرب   کے  پاس ایک بہت بڑا پلیٹ  فارم ہے۔   داعش،  القاعدہ جیسی  تنظیموں نے   اسلام کو  بہت  نقصان پہنچایا ہے۔ ان تنظیموں  نے اسلام کے پیغام بھی نقصان  پہنچایا ہے۔ دہشت گردی نے   دیگر مذاہب کے مقابلہ   اسلام کو  سب سے زیادہ  نقصان پہنچایا ہے۔ یہ انتہا  پسندی تنظیمیں  اسلام کی نمائندگی  نہیں کرتی  ہیں۔ دہشت  گردی اور انتہا   پسندی  کے لیے آج  کی دنیا میں کوئی  جگہ نہیں ہے ۔ جہاں تک مکہ  چارٹر کا تعلق  ہے، اسے  مختلف   سوچ    رکھنے والے    دانشوروں اور  مفتیوں  نے وضع  کیا ہے۔

مکہ  چارٹر  ایک   تاریخی    چارٹر  ہے۔ یہ چارٹر مدینہ  چارٹر پر مبنی ہے جو  دیگر  عقائد کا احترام کرتا ہے جیسی کہ پیغمبر اسلام  کہتے  تھے کہ   دنیا کے  ہر  مذہب کا احترام   کیا جانا چاہئے۔  مکہ  چارٹر  پیغمبر اسلام  کا خواب   ہے۔چارٹر آف مکہ کی 28 مئی 2019 کو مقدس شہر اسلام میں دنیا کے ممتاز مسلم علماء کے ایک بے مثال گروپ نے متفقہ طور پر توثیق کی۔ دنیا کو مذہبی اور ثقافتی تنوع کو قبول کرنے والا مسلم نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے چارٹر پہلے ہی مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر منایا جا چکا ہے۔چارٹر پر 1,200 مفتیوں اور علماء اور 4,500 سے زیادہ اسلامی مفکرین نے دستخط کیے تھے۔ اسے اسلامی ممالک نے نیامی، نائیجر میں اپنے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اپنایا۔ یہ دستاویز پہلے ہی کئی ممالک میں اماموں کی تربیت کا حوالہ بن چکی ہے۔

 سوال: مشرقی  اور مغربی دنیا  کے  بیچ موجود  خلا  کو پُر کرنے کے لیے  مسلم ورلڈ لیگ نے کیا اقدامات کئے ہیں؟

  جواب: تہذیب   کے درمیان  تصادم  بہت ہی خطرناک  نظریہ ہے۔  اقوام متحدہ  میں ہماری   پہل دنیا  کو اس تصادم سے بچانا ہے۔  ہم نے انٹر کلچرل  ڈائلاگ  کے لیے  بہت کوششیں   کی ہیں۔  دنیا   بھر مندوبین نے  ہماری  اس امن کی کوشش کی حمایت کی ہے۔ یہاں  تک  کہ مارٹن   کنگ  لوتھر IIنے  بھی اس کوشش کی    حمایت کی ہے۔ مسلم ورلڈ  لیگ عالمی مذاہب کے درمیان خلا  کو پُر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

 سوال: عالی جناب  نئی دہلی میں آپ نے دو  متاز مذہبی رہنماؤں  سے ملاقات کی۔ آپ  کا   شری سدگورو اورشری شری  روی  شنکر  کے ساتھ  ہوئی بات چیت   کا تجربہ کیسا رہا؟

 جواب:  دونوں مذہبی  رہنما  کے ساتھ  میری ملاقات بہت  شاندار تھی۔  شری  سدگورو اور شری شری  روی شنکر کے ساتھ  میری دوستی مشترکہ اقدار پرمبنی ہے۔ ہم  قومی یکجہتی، دنیا میں بھائی چارہ اور عالمی امن  کو فروغ  دینا چاہتے ہیں۔

 سوال: ہندوستانی حکمت  کے بارے  میں آپ کے کیا  تاثرات ہیں؟

 جواب: بھارتی آئین قدیم بھارتی حکمت کی عظیم علامت ہے۔  دنیا بھر کے مفکروں اور دانشوروں نے  قدیم  بھارتی  نظریہ   سے   بہت کچھ سیکھا ہے۔ آج  تہذیبوں کے درمیان  پُل    تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی مجموعی  ثقافت   تہذیبوں کے درمیان ایک پُل  کی طرح  کام کرسکتی ہے۔عرب دنیا  نے بھی ہمیشہ    ہندوستان  حکمت کی قدر   کی  ہے۔

 سوال: عالی جناب، آپ  کے مسکراتے  ہوئے چہرے  نے  ہندوستان میں لاکھوں دل  جیتے ہیں۔  آپ  کے دورہ  ہند نے مختلف   مذاہب  کے درمیان  خیرسگالی  پیدا کی ہے۔ اس دورہ  کے دوران   ہندوستانی شہریوں  کے ذریعہ  آپ  کو دیئے  گئے  والہانہ  استقبال   کے بارے  کچھ الفاظ کہیں گے؟

جواب :   ہندوستان   آکرمیں   بہت  خوش   ہوں۔ بھارت میں مذاہب کے درمیان  باہمی احترام  کو دیکھ  کر مجھے  بہت  خوشی ملی ہے۔ آج کے چنوتی بھرے دور میں ہندوستان  ہمارا عظیم  دوست  ہے۔ ہماری بات چیت اور تبادلہ خیالات  آپسی سمجھ   بوجھ کو  فروغ دے گی۔

Recommended