جنیوا ، 19 مارچ (انڈیا نیرٹیو)
دنیا بھر میں ملک بدر کیے جانے والے ایغورمسلمانوں نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ وہ چین کے سنکیانگ میں تشدد کے کیمپ بند کرانے میں مدد فراہم کرے۔ اس کےلئے، ان لوگوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹوائن بلنکن کو ایک خط لکھا ہے۔ فی الحال ، الاسکا میں دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان دو روزہ بات چیت جاری ہے۔ ان مذاکرات میں امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان شامل ہیں۔
تاہم ایغور مسلمانوں کے معاملے میں ، وزیر خارجہ بلنکن پہلے ہی چین کو خبردار کر چکے ہیں۔ عالمی ایغور کانگریس کے صدر ڈولکن عیسیٰ نے کہا کہ چین سے پہلے مذاکرات میں نسل کشی اور تشدد کے کیمپ بند کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین کے صوبہ سنکیانگ میں 10لاکھ کے قریب ایغور مسلمان تشدد کے کیمپوں میں قید ہیں۔ ان پر طرح طرح سے تشدد کیا جارہا ہے۔ خواتین کے ساتھ بھی جنسی استحصال کیا جارہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ، چین میں غیر انسانی مظالم روکنے اور مذہبی آزادی کے مطالبے کے لئے ، امریکہ میں مقیم تبتی ، ایغور اور ہانگ کانگ نژاد افراد نے وائٹ ہاوس کے سامنے مظاہرہ کیا۔
واضح ہوکہ کچھ عرصہ قبل ڈوئچے ویلے اور دو دیگر جرمن صحافتی اداروں نے جرمن وزارت خارجہ کی اس خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ سن 2016 کے بعد سنکیانگ میں ایغور مسلمان اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔جرمن وزارت خارجہ نے یہ رپورٹ انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلا ، مغربی ممالک کے سفارت خانوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی معلومات کی روشنی میں تشکیل دی ہے۔ چین میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں جرمن وزارت خارجہ نے یہ رپورٹ گزشتہ برس دسمبر میں تیار کی تھی۔چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور کمیونٹی ترکی النسل مسلمان ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے مماثلت رکھتی ہے۔ ایغور باشندے سنی مسلمان ہیں۔
چین میں انسانی حقوق کے جائزے کی اس رپورٹ میں جرمن وزارت خارجہ نے مزید بتایا کہ سنکیانگ میں تقریباﹰایک کروڑ ایغور مسلمان آباد ہیں اور ان میں سے دس لاکھ افراد نظربند یا پھر چینی حکام کے حراستی مراکز اور کیمپوں میں قید ہیں۔ چین نے سن 2016 کے اواخر میں ایغور مسلمانوں کے لیے یہ مبینہ کیمپ تیار کیے تھے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کیمپوں میں ایغور برادری پر جنسی تشدد بھی کیا گیا اور جسمانی تشدد سے اموات بھی ہوئی ہیں۔چین ان کیمپوں کو نظریاتی تعلیمی ادارے کہتا ہے، جہاں لائے جانے والے افراد کی نظریاتی طور پر تطہیر کی جاتی ہے۔ بیجنگ حکومت کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ سنکیانگ میں پیش آنے والے بیشتر پر تشدد واقعات کی وجہ مسلمانوں کی آزاد ریاست کے حصول کی جدوجہد ہے۔
علاوہ ازیں اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین مصر، قزاقستان، ملائیشیا، پاکستان اور تھائی لینڈ پر دباؤ دے رہا ہے کہ چین سے فرار ہونے والے ایغور باشندوں کو واپس بھیجا جائے۔ رپورٹ کے مطابق چینی حکام ایغور سمیت دیگر مسلمان اقلیتوں پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ماضی قریب میں ناقدین کی جانب سے برلن حکومت پر تنقید کی جاتی تھی کہ وہ اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے بیجنگ حکومت پر سنکیانگ میں پیش آنے والے واقعات پر کھل کر مذمت نہیں کر تی تھی۔ واضح رہے سیمنز اور فولکس واگن جیسی جرمن صنعت کی بڑی کمپنیوں کی فیکٹریاں سنکیانگ میں قائم ہیں۔ دسمبر میں مکمل ہونے والی یہ رپورٹ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین و تارکین وطن کے لیے ہدایتی دستاویز کے طور پر تیار کی گئی ہے، تاکہ ان کو ایغور مسلمانوں کی جانب سے پناہ کی درخواست پر فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے۔