کیف،09مارچ(انڈیا نیرٹیو)
یوکرینی صدرولودیمیرزیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ اب اپنے ملک کومعاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کی رْکنیت دینے پراصرارنہیں کررہے ہیں۔یوکرینی صدر نے اے بی سی نیوز کے ساتھ انٹرویو میں روس کی فوجی مہم جوئی کے تعلق سے پہلی مرتبہ مفاہمانہ ردعمل کا اظہارکیا ہیاورکہا ہے کہ وہ روس کے حامی دو الگ ہونے والے علاقوں کی حیثیت پر ”سمجھوتا“ کرنے کوتیارہیں۔روسی صدر ولادی میرپوتین نے 24 فروری کوحملہ کرنے سے عین پہلے یوکرین کے ان دونوں علاقوں کو آزاد اور خودمختارتسلیم کرلیا تھا۔
زیلنسکی نے پیرکی رات نشر ہونے والے اس انٹرویو میں کہا کہ نیٹو یوکرین کو قبول کرنے کوتیارنہیں ہے اوریہ فوجی اتحاد متنازع چیزوں اور روس کے ساتھ تصادم سے خوفزدہ ہے۔ نیٹو کی رْکنیت کا ذکر کرتے ہوئے زیلنسکی نے ایک ترجمان کے ذریعے کہا کہ وہ کسی ایسے ملک کاصدر نہیں بننا چاہتے جو گھٹنوں کے بل کچھ بھیک مانگ رہا ہو۔یوکرین کی نیٹو میں ممکنہ شمولیت ایک نازک مسئلہ ہے اور روس نیاس معاملے کو بھی مغرب نواز پڑوسی ملک پر حملے کی وج? جواز قراردیا تھا۔روس کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتاکہ یوکرین نیٹو میں شامل ہو۔
یادرہے کہ گزشتہ صدی کے وسط میں سرد جنگ کے آغاز میں یورپ کو سوویت یونین سے بچانے کے لیے بحراوقیانوس کے آرپار واقع ممالک کے درمیان یہ فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا تھا۔حالیہ برسوں میں اس اتحاد میں سابق سوویت بلاک کے بعض سابق ممالک کو شامل کیا گیا ہے جس پرروس نالاں ہے کیونکہ وہ ان ممالک کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے۔روس نیٹو کی توسیع اور رکن ممالک کی تعداد میں اضافے کوخطرے کی ایک علامت قراردیتا ہے اور وہ مغرب کے ان نئیاتحادیوں کو اپنی دہلیز پرایک فوجی قوت کے طور پر دیکھتاہے۔صدر پوتین نے یوکرین پرحملے کا حکم دینے سے چندے قبل مشرقی یوکرین میں واقع دوعلاحدگی پسند روس نواز ”جمہوریاؤں“دونیسک اورلوہانسک کوخودمختار اورآزاد تسلیم کرلیا تھا۔یہ دونوں جمہوریہ سنہ 2014 سے دارالحکومت کیف کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھیں۔صدرپوتین اب چاہتے ہیں کہ یوکرین بھی انھیں خودمختار اور آزاد تسلیم کرے۔جب اے بی سی نیوزنے یوکرینی صدر سے اس روسی مطالبے کے بارے میں پوچھا توانھوں نے کہا کہ وہ اس موضوع پرمزید بات چیت کیلیے تیار ہیں۔انھوں نے کہاکہ ”میں سکیورٹی کی ضمانت کے بارے میں بات کررہا ہوں۔ان دونوں خطوں کو روس کے سواکسی اور ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ہم اس موضوع پربات چیت کرسکتے ہیں اوراس پرکوئی سمجھوتا طے کرسکتے ہیں کہ یہ علاقے کس طرح رہیں گے“۔
زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ”میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے وہ لوگ کس طرح زندگی گزاریں گے جو یوکرین کا حصہ بننا چاہتے ہیں اوریوکرین بھی انھیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے“۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال ان دونوں علاقوں کو تسلیم کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ان کے بہ قول:”یہ ایک اورالٹی میٹم ہے اور ہم ایسے کسی الٹی میٹم کے لیے تیار نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر پوتین بات چیت شروع کریں۔ وہ آکسیجن کے بغیرمعلوماتی بلبلے میں رہنے کے بجائے بات چیت شروع کریں“۔