واشنگٹن،16نومبر(انڈیا نیرٹیو)
باہمی تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے ضمن میں امریکی صدر بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی کے ساتھ پیر کے روز ورچوئل بات چیت کی۔ دونوں رہنماوں نے تجارت، ٹکنالوجی، تائیوان اور انسانی حقوق سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔وائٹ ہاوس سے ایک ٹیلی ویژن اسکرین پر شی جن پنگ کے ساتھ بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے سپر پاورز کے درمیان تصادم سے بچنے کے لیے بہتر رابطوں اور ’حفاظتی جنگلے‘ کی اپیل کی۔ بائیڈن نے کہا کہ ہمیں ایک ایسا ’حفاظتی جنگلہ‘ تیار کرنا چاہئے جو اس امر کو یقینی بنائے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی مسابقت دانستہ یا نادانستہ طورپر تصادم کی صورت اختیار نہ کرسکے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے بیجنگ سے بائیڈن کو ’میرے پرانے دوست‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ حریفوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا،"چین اور امریکا کو رابطے اور تعاون میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق پنگ نے کہا کہ ایک صحت مند اور مستحکم باہمی تعلقات ماحولیاتی تبدیلی اور کووڈ-19 جیسے عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔چینی رہنما نے کہا،جناب صدر میں اتفاق رائے قائم کرنے، سرگرم اقدامات اور چین امریکا تعلقات کو مثبت سمیت میں آگے لے جانے کے لیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے انسانی حقوق اور ہند۔ بحرالکاہل خطے کے دیگر مسائل سمیت واشنگٹن کی فکر مندیوں کو دور کرنے کا بھی وعدہ کیا۔بائیڈن نے میٹنگ کے آغاز پر کہا،دنیا اور اپنے عوام کے تئیں ہماری ذمہ داریاں ہیں اور تمام ملکوں کو یکساں ضابطوں پر عمل کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماوں کو اس امر کو یقینی بنانے چاہئے کہ تعلقات ایک کھلے تصادم میں تبدیل نہ ہونے پائیں۔ اس کے لیے"عقل سلیم کا حفاظتی جنگلہ"بھی استعمال کرنا چاہئے۔ابتدائی جملوں کے بعد دونوں رہنماوں نے متعدد اختلافی مسائل، جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، پر نجی بات چیت شروع کی۔
وائٹ ہاوس کے حکام کا کہنا ہے کہ بات چیت کئی گھنٹوں تک چل سکتی ہے تاہم انہوں نے بہت زیادہ توقعات نہیں باندھے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ کسی بڑے اعلان یا مشترکہ بیان جاری کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد ان کا شی جن پنگ سے یہ تیسرا رابطہ ہے۔ فروری اور ستمبر میں کی جانے والی فون کالز کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان طویل گفتگو ہو چکی ہے۔ اس موقعے پر انسانی حقوق، تجارت، کرونا وائرس کی وبا اور دوسرے مسائل پر بات کی گئی۔دنیا کی بڑی معیشتیں امریکا اور چین کے درمیان تجارت، ٹیکنالوجی، مسابقتی ضابطوں، بحیرہ جنوبی چین اور تائیوان میں بیجنگ کی فوجی موجودگی، ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے متعدد امور پر اختلافات ہیں۔شمال مغربی چین میں نسلی اقلیتوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظاہروں کو دبانے اور کرونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات میں مکمل تعاون کے لیے عالمی دباؤ کی مزاحمت پر امریکا چین کو تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔ کشیدگی میں اس وقت بھی اضافہ ہوا جب چینی فوج نے خود مختار جزیرے تائیوان کے قریب متعدد بار طیارے اڑائے۔ چین تائیوان کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ تائیوان بائیڈن-شی ملاقات میں زیر بحث آنے والا بڑا مسئلہ ہو گا۔ بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ ان کی انتظامیہ امریکا کی 'ایک چین‘کی دیرینہ پالیسی کی پاسداری کرے گی، جو بیجنگ کو تسلیم کرتی ہے اور تائی پے کے ساتھ غیر رسمی اور دفاعی تعلقات کی اجازت دیتی ہے۔ دوسری جانب امریکی کانگریس کے وفد کے دورہ تائیوان کے جواب میں چینی افواج نے تائیوان کے قریب فوجی مشقیں کیں۔