امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل سے متعلق نصف صدی پرانے اس حکم نامے کو مسترد کر دیا ہے جو اس حق کو آئینی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ عدالت نے اپنے نئے حکم میں اس بارے میں فیصلے کا اختیار ریاستوں کو دے دیا ہے کہ آیا وہ اس عمل کی اجازت دینا چاہتی ہیں یا نہیں۔قدامت پسند ججوں کی اکثریت والی اعلی? عدالت کی طرف سے جمعے کے روز سنائے گئے فیصلے کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی۔ نو میں سے پانچ ججوں نے اس کی حمایت کی۔ اس فیصلے سے امریکہ میں ابارشن پر پابندی نہیں لگی، مگر ایسا کرنے کا اختیار اب ریاستوں کو حاصل ہو گا۔امریکی سپریم کورٹ نے 1973 میں ’رو بنام ویڈ‘ کے تاریخی فیصلے میں ابارشن کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے حمل ٹھہرنے کے بعد تب تک اسقاط کی اجازت دی تھی جب تک رحم مادر میں موجود بچہ اس کے باہر سانس لینے کے قابل نہ ہو جائے اور اس کے بعد بھی مخصوص حالات میں ابارشن کے حق کو تحفظ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد نوے کی دہائی میں ’پلانڈ پیرنٹ ہڈ ورسز بنام کیسی‘ کے فیصلے میں اس حق کے لیے تحفظ برقرار رکھا گیا تھا۔ مگر آج "ڈابز بنام جیکسن‘ نامی مقدمے کے فیصلے سے وہ دو فیصلے کلعدم ہو گئے۔
عدالت نے جمعہ کو اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ آئین میں ابارشن کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی آئین کا کوئی حصہ اشارتاً ایسے حق کا تحفظ کرتا ہے۔‘ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ "وقت آ گیا ہے کہ آئین پر عمل کیا جائے اور ابارشن کے معاملے کو لوگوں کے متنخب نمائندوں کے پاس واپس بھیجا جائے۔"اس فیصلے کے قانونی اثرات ملک بھر میں فوری طور سامنے آنے لگ گئے ہیں۔ اور کئی ریاستوں نے اس فیصلے کی روشنی میں اسقاط حمل کے حوالے سے اقدامات لینا شروع کر دیے ہیں۔ابارشن کے بارے میں ذاتی فیصلے کے حق کے حامی ریسرچ گروپ ’گٹماخرانسٹی ٹیوٹ‘ نے اندازہ لگایا ہے کہ 26 ریاستیں جن میں سے زیادہ تر ملک کے جنوب اور مغرب میں واقع ہیں، ایبارشن پر فوری پابندی عائد کر دیں گی۔ اس اقدام سے لاکھوں خواتین جو ایبارشن کروانا چاہتی ہیں، ایسی ریاستوں کا سفر کرنے پر مجبور ہو جائیں گی جہاں خواتین کے اسقاط کا حق محفوظ ہے۔سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمے ’ڈابز بنام جیسکن‘پر پورے امریکہ کی گہری نظریں تھیں۔اس مقدمے میں ریاست مسی سپی میں 15 ہفتوں کے حمل کے بعد کسی بھی اسقاط کی پابندی کے فیصلے کو ریاست میں قائم جیکسن وومن ہیلتھ آرگنازئزیشن نے چیلنج کر رکھا تھا۔ یہ ادارہ ریاست میں اسقاط حمل کا واحد کلینک ہے۔ اس کا موقف تھا کہ ریاست میں سال 2018 میں منظور ہونے والا قانون سپریم کورٹ کے50 سال قبل کے فیصلے سے متصادم تھا۔نچلی دو عدالتوں کی طرف سے کلینک کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد ریاست مسی سپی نے ری پبلکنز کے کنٹرول و۱لی دیگر 25 ریاستوں کے ہمراہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور ججوں سے استدعا کی کہوہ ’رو‘ اور ’کیسی‘ دونوں فیصلوں کو کالعدم قرار دیں۔ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے جو ایبارشن کے حق کی حمایت کرتا ہو۔سپریم کورٹ کے نو میں سے چھے ججوں نے "ڈابز بنام جیکسن" میں ریاست کے حق میں رائے دی، جبکہ ’رو بنام ویڈ‘ کو کلعدم قرار دینے کے حق میں پانچ ججوں نے فیصلہ دیا۔ ان فیصلوں کے حامی تمام ججوں کی تعیناتی ری پبلکن صدور نے مختلف ادوار میں کی۔ غیر معمولی طور پر ان میں سے تین ججوں کو نامزد کرنے کا موقع سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ کو ملا۔اعلی عدلیہ کے تین لبرل ججوں اور قدامت پسند چیف جسٹیس جان رابرٹس نے ’رو بنام ویڈ‘ میں دیے گئے حق کو ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے کو "افسوس ناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ، " آج امریکہ کی سپریم کورٹ نے واضح طور پر امریکی عوام سے وہ آئینی حق چھین لیا ہے جسے وہ پہلے ہی تسلیم کر چکی تھی۔ انہوں نے اسے محدود نہیں کیا، بلکہ اسے مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اتنے سارے امریکیوں کے لیے اتنے اہم حق کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔ڈیموکریٹ پارٹی کے راہنما سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ قدامت پسند ری پبلکن پارٹی کی اراکین نے اس فیصلے کو جراتمندانہ اور درست فیصلہ قرار دیا ہے۔ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل کے اظہار میں کہا ہے کہ ’رو بنام ویڈ‘ کے پچاس سال قبل کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیکر ان کے الفاظ میں ’بنیاد پرست سپریم کورٹ امریکیوں کے حقوق کو انجر پنجر کر رہی ہے اور ان کی صحت اور سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے‘۔