افغانستان بحران میں سب سے زیادہ ذہنی کش مکش کی شکار افغانی خواتین ہیں۔ افغانی خواتین، طالبان سے سخت خوفزدہ ہیں، زیادہ تر افغان خواتین کا کہنا ہے کہ طالبان سے ہم سب محفوظ نہیں ہیں۔ طالبان ہمارے ساتھ جسمانی زیادتی کر رہے ہیں۔ اس تعلق سے ایک تحریر پڑھیے کہ کیسے افغان فوج میں شامل خاتون خود کو ڈری ہوئی محسوس کر رہی ہیں؟
کبریٰ بہروز بتاتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر طالبان ہمیں پائیں گے تو وہ ہمارے سر کاٹ دیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک سپاہی ہونے کے ناطے مجھے اغوا کیا جائے گا ، جیل میں ڈال دیا جائے گا اور ریپ کیا جائے گا۔ میں اپنے مستقبل اور اپنے خاندان کے بارے میں خوفزدہ ہوں۔ بہروز کے پشتون ساتھی اور خواتین ساتھی ان کو بچ کر رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ بہروز کہتی ہیں ، ’وہ کہتے ہیں کہ اگر طالبان ہمیں پائیں گے تو وہ ہمارا گلا کاٹ دیں گے‘۔
تصویر: اے ایف پی ( شکریہ)
کبریٰ بہروز نے 2011 میں افغان نیشنل آرمی (Afghan National Army) میں شمولیت اختیار کی تھی تو وہ اس وقت بہت فخر محسوس کر رہی تھیں۔ اب جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے تو وہ ڈری اور سہمی ہوئی ہیں۔ فوج میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے پر کبریٰ بہروز کہتی ہیں ، 'میں کسی کے ماتحت نہیں رہنا چاہتی۔ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔ افغانستان جیسے اسلامی ممالک میں فوج میں خواتین کی بھرتی کو عجیب نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کبریٰ بہروز نے برطانیہ میں ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’’مجھے اپنے ملک سے پیار ہے اور ہم افغانیوں کی اگلی نسل ہیں جو جدید دنیا میں قدم رکھیں گے۔‘‘
33 سالہ بہروز نے بتایاکہ ’’میں جب صبح کام پر گئی تھی اور وہاں کسی بھی عام چوکی پر پولیس یا فوجی نہیں تھے اور دفتر میں کوئی نہیں تھا ، اس لیے میں گھر آگئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ خاندان سڑکوں پر ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کیا کرنا ہے۔
کبریٰ بہروز نے کہا کہ انہوں نے بتایا، طالبان کے کابل پہنچنے سے پہلے بیوٹی پارلرز کے مالکان اپنی کھڑکیوں کو پینٹ کرتے ہیں اور کیسٹ کی دکانوں میں مزدور موسیقی کے آلات کو تباہ کرتے ہوئے دیکھا۔ خاص طور پر بہروز کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔
کبریٰ بہروز بتاتی ہیں ، 'لوگ کہتے ہیں کہ اگر طالبان ہمیں پائیں گے تو وہ ہمارے سر کاٹ دیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک سپاہی ہونے کے ناطے مجھے اغوا کیا جائے گا ، جیل میں ڈال دیا جائے گا اور ریپ کیا جائے گا۔ میں اپنے مستقبل اور اپنے خاندان کے بارے میں خوفزدہ ہوں۔ بہروز کے پشتون ساتھی اور خواتین ساتھی ان کو بچ کر رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ بہروز کہتی ہیں ، 'وہ کہتے ہیں کہ اگر طالبان ہمیں پائیں گے تو وہ ہمارا گلا کاٹ دیں گے'۔
کبریٰ بہروز کا خوف جائز ہے۔ بہروز کا بھائی بھی فوج میں ہے جو گزشتہ ہفتے غزنی صوبے میں لڑائی میں زخمی ہوا تھا۔ انہیں کسی نے بتایا کہ چار سال پہلے دو خواتین کا سر قلم کیا گیا تھا کیونکہ وہ پولیس اہلکار تھیں۔
سوشل میڈیا پر طالبان جنگجوؤں کی شادی کے نام پر خواتین اور کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی چل رہی ہیں۔زنا نامی ایک پرتھا کے تحت ، افغانستان میں ، اگر کسی لڑکی کا ریپ ہوتا ہے تو اسے عام طور پر اس کے ریپ کرنے والے سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا اس کے پورے خاندان کو اس کے "شرمناک" رویے کی وجہ سے کمیونٹی سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جن لڑکیوں (Afghan Girls) کو مستقبل کے خوب صورت خواب دکھائی دینے لگے تھے انہیں آج دن کے اجالے میں بھی برے خواب ہی نظر آرہے ہیں۔ افغانستان (Afghanistan Taliban) میں چل رہے خوفناک کھیل میں سب سے زیادہ سہمی ہوئی یہ لڑکیاں ہی ہیں جنہوں نے آزادی کا سورج قریب۔قریب دیکھ ہی لیا تھا کہ طالبان کی اندھیری رات پھر ان کے خواب کچلنے لگی ہے۔ لڑکیوں کے ذہن میں صرف ایک ہی ڈر (Scared Afghan Girls) ہے کہ کہیں گھر سے اٹھاکر انہیں طالبان اپنی بے انتہا درندگی کا شکار نہ بنالیں۔
افغانستان (Afghan Girl Video) کی ایک ایسی ہی لڑکی کا ویڈیو ٹویٹر پر اس وقت زبردست وائرل ہو رہا ہے۔ 45 سیکنڈ کے اس ویڈیو میں آپ خوف کو اپنی نسوں میں محسوس کرلیں گے۔
ذرا سوچئے اسکول۔کالج اور کریئر کے بارے میں سوچنے والی ان لڑکیوں کے سامنے ریپ اور سیکس سلیو (Afghan Girls rape and sex slave) جیسے طالبانی زندہ ہو اٹھے ہیں اور ان سے بچانے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی تنظیم، نہ کوئی ملک اور نہ کوئی انتظامیہ اور حکومت۔
کابل۔ افغانستان (Afghanistan) کے حالات طالبان (Taliban) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان جنگجو ہر روز عام لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اب ان کی نظر نوجوان لڑکیوں پر ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق طالبان لیڈران 12 سے 45 سال کی عمر کی لڑکیوں اور خواتین کو جنسی غلام (Sex Slaves) بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھر گھر جا کر اس عمر کی لڑکیاں اور عورتوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔
یہ معلومات 'دی سن' کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔ اس سے قبل طالبان دہشت گردوں نے صرف خواتین کو شرعی قوانین پر عمل کرنے کے لیے کہا تھا ، لیکن ان کی حالیہ حرکت عراق اور شام میں موجود دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کی کرتوت سے مل رہی ہے جو پہلے سے ہی خواتین کو سیکس سلیوس بنانے کے لیے بدنام ہیں۔
گزشتہ مہینے یہ انکشاف ہوا تھا کہ طالبان نے قبضے والے علاقے میں موجود اماموں سے کہا تھا کہ وہ 15 سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور 45 سال سے کم عمر کی بیواؤں کی فہرست تیار کریں اور انہیں طالبان کے حوالے کریں تاکہ وہ اپنے جنگجوؤں کی شادی ان خواتین سے کرا سکیں۔
اب رپورٹس میں سامنے آیا ہے کہ طالبان افغانستان سے خواتین کو زبردستی اور اغوا کی مدد سے اٹھا رہے ہیں۔اس کے علاوہ طالبان نے خواتین کے لیے بھی الگ قوانین بنائے ہیں جس کی وجہ سے پابندیاں زیادہ ہو گئی ہیں۔ ویسے جہاں بھی طالبان کا غلبہ زیادہ ہے وہاں خواتین کے لیے خاص قوانین بنا دئے جاتے ہیں۔
طالبان کے ان قوانین کے مطابق خواتین عوامی طور پر بہت سی چیزیں نہیں کر سکتیں اور ان کے لباس سے ان کی سرگرمیوں پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔قوانین کے مطابق خواتین سرعام مستی۔مذاق نہیں کر سکتیں اور ان کے کام پر جانے پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ان کے لیے اکیلے باہر جانا منع ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ایک آدمی کا ہونا ضروری ہے۔
تصویر: نیوز 18 اردو ( شکریہ)
خواتین کا علاج صرف خاتون ڈاکٹر کرتی ہیں ، وہ مرد ڈاکٹروں کے پاس نہیں جا سکتیں۔ یہی نہیں خواتین کو کاسمیٹکس کے استعمال سے بھی منع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ خواتین مردوں سے مصافحہ نہیں کر سکتیں اور نہ زیادہ زور سے ہنس سکتی ہیں۔اس کے علاوہ طالبان نے خواتین پر اونچی ہیل والے جوتے پہننے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔خواتین ٹیکسیوں میں سوار نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے موٹر سائیکل ، سائیکلنگ کھیل ۔ کلود میں حصہ لینے پر بھی پابندی ہے۔یہاں تک کہ خواتین ندی میں کپڑے بھی نہیں دھو سکتیں اور نہ ہی عورتیں بالکنی اور کھڑکیوں سے باہر دیکھ سکتی ہیں۔خواتین کی تصاویر کلک کرنے پر بھی پابندی ہے ، یہاں تک کہ اشتہارات میں بھی خواتین نہیں ہوتی ہیں۔