Urdu News

ترکی نے سفیروں کی ملک بدری کا فیصلہ کیوں واپس لیا؟

ترکی نے سفیروں کی ملک بدری کا فیصلہ کیوں واپس لیا؟

انقرہ،26اکتوبر(انڈیا نیرٹیو)

بین الاقوامی تنہائی اور تیزی سے معاشی زوال کے خطرات کے باعث ترک صدر رجب طیب اردغان نے پیر کو 10 مغربی سفیروں کو ملک بدر کرنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ ان سفیروں کو ترک کاروباری شخصیت عثمان کاوالا کی رہائی کا مطالبہ کرنے پر ملک چھوڑنے کو کہا گیا تھا۔ ترک اپوزیشن کارکن کاوالا کو 4 سال سے بغیر مقدمہ چلائے قید کیا گیا ہے۔ترک صدر طیب ایردوآن نے طویل اجلاس کے بعد اس فیصلے سے اپنی پسپائی کا جواز یہ پیش کیا کہ سفیر بھی اپنے مطالبے سے ”پیچھے“ ہٹ گئے ہیں۔

امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق اجلاس میں ہونے والی طویل بحث کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں تاہم مبصرین کے مطابق امکان ہے کہ اْنہیں مغربی ممالک کے ساتھ ایک نئے بحران کے تباہ کن نتائج کی وارننگ ملی ہو جس پر انہوں نے سفیروں کی ملک بدری کا فیصلہ واپس لے لیا۔

یہ پیش رفت امریکا، کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن کے سفیروں کی جانب سے 18 اکتوبرکوایک مشترکہ بیان جاری کرنے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں کارکن کاوالا کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔تاہم اس موقف سے تْرک صدر سخت برہم ہوئے اور انہوں نے اسے ترکی کے اندرونی معاملات میں ’مداخلت‘ قرار دیا۔ صدر ایردوآن نے ہفتے کے روز سفیروں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے وزیر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان 10 سفیروں سے جلد از جلد نمٹیں۔ انہیں وہ ذاتی طور پر پسندیدہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے وسطی ترکی کے دورے کے دوران سفارتی اصطلاح استعمال کی جو عام طور پرسفیروں کو ملک سے نکالنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔سرکاری انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق ایردوآن نے پیر کے روز سفیروں کے بیان کو ترکی میں "آزاد عدلیہ" کو نشانہ بنانے اور عدالت کی "توہین" قرار دیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمعرات کو شروع ہونے والے بحران اور ہفتے کو دہرائے جانے والی دھمکی نے لیرا کی شرح مبادلہ پر شدید اثر ڈالا، جس کے ساتھ ہی پیرکی صبح ترک لیرہ کی کم ترین سطح ریکارڈ کی گئی، جو کہ ڈالر کے مقابلے میں 9.80 سے زیادہ تھی۔ ٹریڈنگ 9.73 کی حد میں طے ہونے سے پہلے ڈالر کے مقابلے میں 13 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔

Recommended