مروت اور باہمی احترام کی دینی سیاسی و معاشرتی اقدار معدوم ہوتی جا رہی ہیں: معروف عالم دین
رخسار بٹ، کراچی
گلوبل ٹائمز میڈیا یورپ کے مطابق معروف عالم دین، مفتی منیب الرحمان نے کہا ہے کہ نوجوان اپنے سیاسی قائد ین کو معاذ اللہ !دیوتا کا درجہ دینے لگ گئے ہیں، یہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی افسوسناک ہے۔اپنے جاری کردہ بیان میں ممتاز عالم دین مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان نے کہا ہے کہ مروت اور باہمی احترام کی دینی، سیاسی و معاشرتی اقدار معدوم ہوتی جارہی ہیں اور نوجوان اپنے سیاسی قائد ین کو معاذ اللہ !دیوتا کا درجہ دینے لگ گئے ہیں، یہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی افسوسناک ہے،پاکستان کی سیاست کے عناصرِ ترکیبی دوسروں سے نفرت، تحقیر و تذلیل اور اپنے من پسند قائدین کی عصبیتِ جاہلیہ کے طرز پر پرستش کی حد تک متعصبانہ وابستگی بن گئے ہیں،اس شدید عصبیت نے صحیح اور غلط، حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کی تمیز کو مٹادیا ہے،نوجوان نسل کو اخلاقی پستی میں گرادیا ہے۔
ہمارے سیاسی اثاثے میں نوابزادہ نصر اللہ جیسا کوئی بزرگ سیاستدان بھی نہیںجو سب کو ایک جگہ بٹھا سکے۔ اندیشہ ہے کہ یہ تفریق اور افتراق قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گا قریہ قریہ، گلی گلی عام لوگوں اور خاندانوں میں نفرتیں پیدا ہوں گی اور پھر ان منتشر ٹکڑوں کو جمع کرکے ایک جسدِ قومی و ملی کی تشکیل انتہائی دشوار ہوجائے گی، چودھری شجاعت حسین بزرگ سیاست دان ہیں، انھیں چاہیے کہ مسئلے کا حصہ بننے کے بجائے اس کے حل کا حصہ بنیں، غیر متنازع اور سب کے لیے قابلِ قبول علما، دانشوروں، صحافیوں، وکلا اور سیاستدانوں کو جمع کر کے ایک مشترکہ اپیل جاری کریں اور ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیں کیونکہ دستورِ پاکستان کو بھی متنازع بنایا جارہا ہے اور ہر گروہ اس کی دفعات کی من پسند تعبیر و تشریح کررہا ہے اور اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ پارلیمنٹ کا چلنا بھی دشوار ہوجائے گا۔مفتی منیب نے کہا کہ جب قومی لیڈر یہ بیان دینے لگیں۔
تمہارے بچے سکولوں میں کیسے جائیں گے، رشتے ناتے کیسے کرو گے۔ تمہارے گھروں کا گھیرا ئوکیا جائے گا، یہ قوم کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اگر اس روش پر چلتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے تو منزل کی طرف واپسی دشوار ہوجائے گی، اس لیے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے،مقامِ افسوس یہ بھی ہے کہ سیاست و صحافت کے میدان میں سب نے ایک پوزیشن اختیار کر لی ہے، ایسے میں متوازن اور تعمیری فکر کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی، دلیل و استدلال کا معروضی نہیں، بلکہ موضوعی بن جاتا ہے۔ ایسے میں تخریب آسان اور تعمیر دشوار ہوجاتی ہے.