سرینگر۔ 5؍ مارچ۔(زبیرقریشی )
تاریخ گواہ ہے کہ قدیم کشمیری اپنے ہم عصر شہریوں سے زیادہ ہنرمند قابل اور خوشحال تھے۔ کشمیر میں روزگار کے وسائل کی طرف اگر نظر ڈالی جائے تو ماضی قریب تک کشمیر میں سرکاری ملازمتیں روزگار کا بنیادی وسیلہ نہیں تھا بلکہ عوام کی غالب اکثریت زراعت، باغبانی یا دستکاری صنعت سے وابستہ تھی۔
تاریخ کے ارتقاء نے کشمیر میں روزگار کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔یہاں کے لوگوں نے اچانک سرکاری نوکریوں کو نہ صرف اپنے اور اپنی اولاد کیلئے منزل قرار دینا شروع کردیا ہے بلکہ اپنی صدیوں پرانی روایات بالخصوص دستکاری شعبے کو یکسر نظرانداز کرنے لگے، حالانکہ دستکاری کو کشمیر کی معیشت کا ایک بڑا سیکٹر تصور کیا جاتا ہے اور اس شعبہ کی بدولت آج بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر میں قالین بافی، نمدے یا گبہ سازی، پیپر ماشی، اخروٹ کی لکڑی پر نقش و نگاری کا کام، شال بافی وغیرہ قدیم صنعتوں میں شامل ہیں۔
پیپر ماشی کو جمالیاتی فنون میں شمار کیا جاتا ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد نئی دہلی حکومت کے اقدامات نے کشمیر میں اس کاروبار سے جڑے افراد اور کاریگروں کو غربت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس فن میں کاغذ کے دستوں کو گیلا کر کے کوٹ کوٹ کر یک جان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس گیلے کاغذی مواد کو مختلف صورتوں ڈال دیا جاتا ہے۔
ان نمونوں کو شوخ رنگوں سے سنوارا جاتا ہے۔وہیں دوسری جانب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل( نے پیپر ماشی کی فن کو کشمیر میں زندہ کرنے کیلئے مختلف کورسیز کا آغاز کیا ہے اسی دوران کرافٹ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی مدد سے اننت ناگ میں پیپر ماشی کا ایک خصوصی سینٹر شروع کیا گیا ہے۔
جس میں تقریباً 40 چالیس افراد نے، جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہے، نے داخلہ لے لیا ہے۔ اس سلسلے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کشمیر میں نوجوانوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقعے فراہم کرنے کے مقصد سے وادی کے مختلف مقامات پر ‘اسکل ڈیولپمنٹ’ کو بڑے پیمانے پر متعارف کیا جا رہا ہے۔
جس سے کشمیر میں روزگار کے مواقع بڑھ جائیں، اس کے لئے یہاں اسکل ڈیولپمنٹ کا کام بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپر ماشی کے ان خصوصی مراکز میں مرد و خواتین کشمیر کی اس پرانی صنعت کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ سینٹرس میں ان کے لئے ماہر کاریگر انہیں تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
پیپر ماشی کو چودہویں صدی میں ایک معتبر کاروبار کی حیثیت حاصل تھی اور اس کے نمونے مختلف معاشروں میں پسند کیے جاتے تھے۔ اس فن کو جمالیاتی فن کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان خواتین کا کہنا ہے کہ یہ کشمیر کا پرانا فن مانا جاتا ہے اور ہم اس کی ترتیب حاصل کرنے کے بعد اس فن کو نہ صرف زندہ رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اس سے اپنا روز گار بھی حاصل کریں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر سرکار کی جانب سے اس فن کو صحیح مارکیٹ فراہم کی جائے تو کشمیر میں بے روزگاری کافی حد تک کم ہو سکتی ہے اور یہاں کی خواتین اپنے گھروں میں روزگار کما سکتی ہے۔دوسری جانب سینٹر میں فن سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نے ماہر کاریگر استادوں کی مدد سے یہاں پیپر ماشی کا ایک خصوصی سینٹر بھی شروع کیا ہے۔
جس میں تقریباً 40 خواہش مندوں نے داخلہ بھی لیا ہے اور وہ اس فن کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور آنے والے وقت میں وہ خود اپنا ایک یونٹ چلا سکتے ہیں۔ جس سے وہ نہ صرف اپنا روزگار کما سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس فن کے ذریعے روزگار مہیا کر سکتے ہیں۔پیپرماشی کشمیر کےلیے بڑے فن کے طور پر ابھر رہا ہے اور اس کی مصنوعات بیرون ممالک میں بھی بھیجی جاتی ہیں۔
ان مصنوعات کو بڑھانے سے نہ صرف کشمیر میں ترقی ہوگی بلکہ کشمیر کے تہذیب اور ہنر کی بھی دنیا میں تشہیر ہوگی۔ واضح رہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر میں اس فن کو مزید بڑھاوا دینے کے لئے سرکار کو ٹھوس اقدامات اٹھانے ہو ں گے اور اس صنعت کو صحیح مارکیٹ مہیا کرانا ہوگا تاکہ کشمیر میں بے روزگاری کو ختم کرنے کے لئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا کئے جا سکیں۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…