فصیح الملک مرزا داغ دہلوی

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>تسنیم فردوس</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
کوچین،کیرلا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ کس کی ہے شہرت</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
کیا تم نے کبھی داغ کا دیوان نہیں دیکھا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
بلبلِ ہند فصیح الملک نواب مرزا داغ وہ عظیم المرتبت شاعر ہیں جنہوں نے حرماں نصیبی سے نکال کر محبت کے وہ ترانے گائے جو اردو غزل کے لیے نئے تھے۔ داغؔ کا اصل نام ابراہیم تھا لیکن وہ نواب مرزا خان کے نام سے جانے جاتے لگے۔ نواب مرزا داغ 25مئی1831 کو دلی میں پیدا ہوئے۔ داغ پانچ برس کے ہی تھے کہ ان کے والد کو دہلی کے ایک باشندے کے قتل میں پھانسی دے دی گئی۔ داغ کی والدہ نے بہادر شاہ کے بیٹے "مرزا فخرو" سے شادی کرلی۔ داغ اپنی والدہ کے ساتھ قلعہ معلیٰ میں آگئے اس طرح داغ کی ذہنی اور علمی تربیت قلعہ کے ماحول میں ہوئی۔قلعہ کے رنگین اور ادبی ماحول میں داغ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اور انھوں نے ذوق کی شاگردی اختیار کر لی۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
نو عمری سے ہی داغ کی شاعری میں نیا بانکپن تھا۔ ان کے نئے انداز کو امام بخش صہبائی، غالب اور شیفتہ سمیت تمام اہلِ علم نے سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ داغؔ کی زندگی کا بہترین وقت لال قلعہ میں گزرا،یہیں کے ماحول میں ان کی جنسی خواہشات جاگیں اور یہیں ان کی تکمیل کا سامان ہوا۔ والد کے انتقال کے بعد داغ کو اپنی والدہ کے ساتھ قلعہ چھوڑنا پڑا۔ اور غدر کے بعد رامپور چلے گئے وہاں والی رام پور نواب یوسف علی خان نے ان کی خوب قدر ومنزلت کی، رامپور کے بعد داغ حیدرآباد چلے گئے وہاں بھی انھیں بہت شہرت ملی۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ کی تصانیف میں چار دیوان گلزار داغؔ، آفتابِ داغؔ، ماہتاب ِ داغؔ اور یادگارِ داغؔ، ایک مثنوی اور کچھ رباعیات اور قصائد شامل ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے لیے انھیں بلبلِ ہند، جہاں استاد، ناظم یارجنگ، دبیر الملک اور فصیح الملک کے خطابات سے نوازا گیا۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو ہر طرف غالب، مومن، ذوق اور ظفر کی شاعری کی دھوم تھی۔ داغؔ کے عہد میں اردو زبان دو سطحوں پر معمور تھی ایک علمی اور دوسری عوامی، علمی زبان کی نمائندگی غالب فرما رہے تھےاور ان کی پیشتر شاعری خواص تک محدود تھی، جب کہ اس کے برعکس داغؔ کی شاعری عوامی تھی۔ وہ براہِ راست عوام سے محو گفتگوتھے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ نے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعہ معلیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی جس کی داغ بیل شیخ ابراہیم ذوقٓ رکھ گئے تھے۔ نیا اسلوب سارے ہندوستان میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے اسکی پیروی کی اور ان کے شاگرد بن گئے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیات زبان کا عمدہ استعمال ہے۔۔ سادگی، شیرینی، ترنم، روانی اور محاورات کا برجستہ استعمال ان کی زبان کی بنیادی خصوصیات ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ کا کلام نہ صرف عوام میں بلکہ خواص میں بھی بے حد مقبول ومعروف تھا، داغؔ کی بیشتر شاعری کیونکہ معاملاتِ عشق سے شرابور تھی جسکے نتیجے میں عوام وخواص دونوں کی دلچسپی ان کے کلام میں بہت زیادہ ہوتی تھی۔ بقول نفیس سندیلوی "داغؔ فطری شاعر تھے وہ غزل کے لئے پیدا ہوۓاور غزل ان کے لئے، ان کی زبان غزل کی جان ہے۔<span dir="LTR">"</span></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سر میرا کاٹ کے اے نامہ رساں لیتا جا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
گرچہ بے کار سہی پر ہے یہ سوغات نئی</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ ایسے خوش قسمت شاعر تھے جنکے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ ان کے شاگردوں میں فقیر سے لے کر بادشاہ تک اور عالم سے لے کر جاہل تک ہر طرح کے لوگ تھے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ اچھی صورت کے ساتھ ساتھ موسیقی کے بھی رسیا تھے۔ عام طور پر عشقیہ جذبات ہی داغؔ کی شاعری میں دوڑتے نظر آتے ہیں جنہیں طرح طرح کے رنگ بدلتے دیکھ کر قاری کبھی اچھل پڑتا ہے کبھی آزردہ ہو جاتا ہے، کبھی ان حالات کو اپنے دل کی گہرائیوں میں تلاش کرتا ہے ۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
عاشقی سے ملے گا اے زاہد</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
بندگی سے خدا نہیں ملتا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ کی تمام شاعری وصل کی شاعری ہے۔ نشاطیہ لب ولہجہ، غیر منافقانہ رویہ اور دہلی کی زبان پر قدرت داغؔ کی مقبولیت کا راز ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی الگ پہچان بنائی بلکہ انکی ذات سے اردو زبان کو جو فیض پہنچا ہے اس پر کوئی بھی اہلِ زبان فخر کر سکتا ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ کی اردو کے بارے میں ایک جگہ غالب کچھ اسطرح رقم طراز ہیں کہ "داغؔ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی، ذوقٓ نے اردو کو اپنی گود میں پالا تھا، داغؔ نہ صرف اسکو پال رہا ہے بلکہ اسکو تعلیم بھی دے رہا ہے<span dir="LTR">"</span></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ کے زمانے میں طوائفوں سے تعلقات رکھنا معیوب نہیں تھا۔ وہ حسن پرست تھے اور زندگی کے آخری دنوں تک ایسے ہی رہے۔ وہ خوبصورت چہروں کے دلدادہ تھے۔ اگر اچھی صورت پتھر میں بھی نظر آ جائے تو وہ اس کے عاشق<span dir="LTR">! </span></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
بت ہی پتھر کے کیوں نہ ہوں اے داغؔ</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اچھی صورت کو دیکھتا ہوں میں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
خوب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
داغؔ نے 74سال کی طویل عمر پائی۔ 16فروری 1905کی شام داغؔ اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی اور مالک حقیقی سے جا ملے اور عیدالاضحی کی صبح کو آپ کی نماز جنازہ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ادا کی گئی۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہوش و ہواس تاب وتواں داغ جا چکے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago