غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بہ اشتراک نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیریونیورسٹی دوروزہ قومی سمینار کا افتتاح
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ، نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار بعنوان ’غالب اور جشن زندگی‘ کا افتتاح گاندھی بھون، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر میں ہوا۔
سمینار کا افتتاح اورصدارت پروفیسر فاروق احمد مسعودی صاحب، ڈین اکیڈمک افیئر کشمیر یونیورسٹی، سری نگر نے فرمائی۔ پروفیسر مسعودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی بھی شعر کا معیار سمجھنے کے لیے یہ غور کرنا چاہیے کہ اس کو پڑھنے یا سننے کے بعد ہماری دانش میں کیا اضافہ ہوا۔ غالب کے اشعاراس بنیاد پرپورے اترتے ہیں۔
دوسری خصوصیت ان کے کلام کی یہ ہے ان کے اشعار چاہے سمجھ میں نہ بھی آئیں پھر بھی دل کو چھو جاتے ہیں۔ اردو کے معروف نقاد و محقق پروفیسر محمدزماں آزردہ صاحب نے اس سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب اردو کے ان شعرا میں ہیں جنھوں نے زندگی کو پوری طرح جیا ہے۔ وہ زندگی کو باہری شرائط کے ساتھ قبول نہیں کرتے یعنی ان کے نزدیک صرف خوشی و شادمانی کانام زندگی نہیں۔ وہ غم اور ناکامی کا بھی جشن منانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جو شخص زندگی کو اتنے قریب سے جانتاہو وہی اس کو بازیچہَ اطفال کہہ سکتا ہے۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ غالب نے جب میر کے دیوان کی داد دی تو انھوں نے کشمیر کو استعارہ بنایا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی سے باہر بھی سمینار کا انعقاد کرتا ہے۔ مجھے بہت دنوں سے احساس تھا کہ کشمیر جواتنا اہم خطہ ہے وہاں آج تک غالب انسٹی ٹیوٹ نے کوئی سمینار نہیں کر سکا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج اس خواہش کی تکمیل ہورہی ہے۔ میں تمام شرکاکا دل کی گہرائیوں شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں۔
ڈائرکٹر نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیر یونیورسٹی پروفیسر طارق احمد چشتی صاحب نے استقبالیہ کلمات اداکرتے ہوئے کہاکہ نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی اردو کے تعلق سے ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ کلاسیکی اور جدیدادب کے تعلق سے اہم موضوعات پر اعلیٰ پیمانے کے سمینار اور خطبات کا انعقاد ہو۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ جو کہ ایک فعال ادارہ ہے اور غالبیات کے تعلق سے خصوصاً بہت سرگرم رہتا ہے۔ دونوں ادارے ’غالب اور جشن زندگی‘ کے اہم موضوع پر سمینار کا انعقاد کر رہے ہیں۔ یہ موضوع نہ صرف غالب کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔
افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر الطاف انجم صاحب نے فرمائی انھوں نے اپنی نظامت کے دوران کہا کہ غالب نے زندگی بھرقرض کی مئے پی لیکن اپنی شاعری سے ادب کو مقروض کر گئے۔ وہ صرف اردوہی نہیں برصغیر کے بڑے شاعروں میں تھے۔ انھوں نے فکر کے ان گوشوں کوروشن کیاجن کی طرف ان کے بعد بھی خال خال ہی ادیبوں کی نظر گئی ہے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت جناب سلطان الحق شہیدی صاحب نے فرمائی اور نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر نکہت نظر صاحبہ سے وابستہ رہی۔
جناب سلطان الحق شہیدی،جناب رفیق راز،محترمہ رخسانہ جبیں ،محترمہ شبنم عشائی،جناب پرویزمانوس،محترمہ شفیقہ پروین،جناب عادل اشرف، ڈاکٹر راشد عزیز، جناب ستیش ومل، جناب سلیم ساغر، محترمہ نکہت نظر،محترمہ حنا خان،جناب مبارک لون،جناب عارض ارشاد اور محترمہ روشن آر ا نے اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے کے بعدشام غزل کا اہتمام کیا گیا جس میں معروف غزل سنگر جناب کفایت فہیم صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں غالب اور دیگر شعراکا کلام پیش کیا جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔
سمینار کے دوسرے دن یعنی 21;241; مارچ کو صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک تکنیکی اجلاس ہوں گے جن مقالہ نگار مقالہ حضرات کو مدعو کیا گیا ہے ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں۔
ڈاکٹر عابد گلزار، ڈاکٹر محی الدین زور، ڈاکٹر الطاف انجم،ڈاکٹر مشتاق حیدر،ڈاکٹر کوثر رسول، ڈاکٹر نصرت جبین،ڈاکٹر کوثر مزمل، ڈاکٹر محمد یوسف وانی،ڈاکٹر عبداللہ، امتیاز احمد، ڈاکٹر توصیف احمد ڈار، ڈاکٹر مسرت گیلانی ، ڈاکٹر مصروفہ قادر، ڈاکٹر محمد یونس ٹھوکر، ڈاکٹر اقبال افروز،ڈاکٹر ریاض احمد کمار،جناب سہیل سالم اور ڈاکٹر محضر رضا۔ تکنیکی اجلاس کی صدور پروفیسرنذیراحمدملک،پروفیسر شفیقہ پروین،پروفیسر محمدغیاث الدین اور ڈاکٹر عرفان عالم ہوں گے۔ ان اجلاس کی نظامت ڈاکٹر توصیف احمد،جناب جاوید احمدنجار،جناب ظہور احمد گنائی اور محترمہ صوفی سمیرا سے وابستہ ہوگی۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…