میں چاہتا تو دوسروں کی طرح سیداحمد خاں کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ استعمال کرسکتا تھا، لیکن میں نے انھیں حکیم اس لیے لکھا ہے کہ اس میں حکمت کا راز پوشیدہ ہے اور یہ حکمت حکیموں والی نہیں بلکہ داناؤں والی ہے۔حکیم سید احمد خاں کے پرتو پر نظر ڈالئے تو ان کی شخصیت کے کئی نقوش ایک ساتھ ابھرتے ہیں۔سب سے پہلا نقش تو ان کے پٹھان ہونے کا ہے اور دوسرا نقش ان کے طبیب حاذق ہونے کا۔عجلت پسندی ان کا تیسرا ایسا وصف ہے جو ان کے دیگر اوصاف پر حاوی ہے۔وہ گھڑی کی چوتھائی میں کوئی بھی پروگرام ترتیب دے لیتے ہیں اور اسی عجلت کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے عجلت پسندی کے جو نقصانات ہوسکتے ہیں،وہ ہوکر رہتے ہیں۔ حکیم سید احمد
مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے بطور طبیب اب تک کتنے صحافیوں کو صحت یاب کیا ہے، لیکن میں نے ہمیشہ ان کے ارد گرد صحافیوں کا ہجوم دیکھا ہے۔ محض اردو کے نہیں بلکہ ہندی اور انگریزی کے صحافی بھی ان سے اپنا علاج کراتے ہیں۔ حالانکہ صحافیوں کا علاج کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جو لوگ خود دوسروں کا علاج کرنے پر یقین کامل رکھتے ہوں، ان کا علاج کیسے کیا جاتا ہے یہ کوئی حکیم سید احمد خاں سے پوچھے۔ ہم صحافیوں کو یوں بھی مفت خوری کی جتنی عادت ہوتی ہے اتنی شاید ہی کسی اور پیشے سے وابستہ لوگوں کو ہوتی ہو۔ اس راز کو حکیم سیداحمد خاں نے کہاں سے اور کب دریافت کیا، یہ بھی ایک راز ہی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ جو بھی ان کے مطب میں گیا وہ خمیرے اور معجون سے زیربارہوکر واپس آیا۔میں نے بعض معجون مرکب قسم کے صحافی بھی ان کے مطب میں دیکھے ہیں، جن کا علاج وہ بالتدبیر کرتے ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ یونانی حکیم صرف پوشیدہ بیماریوں کا علاج کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔لیکن حکیم سیداحمد خاں کا کمال ہے یہ کہ وہ غیرپوشیدہ بیماریوں کے علاج پر بھی اتنی ہی قدرت رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مریض کی نبض دیکھے بغیر اس کی بیماری کا پتہ لگالیتے ہیں۔ بعض لوگوں کو ان کے اس ہنر پر حیرت بھی ہوتی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے یہاں آنے والے ہرشخص کے مزاج سے واقف ہیں اورطب یونانی میں نبض سے زیادہ مزاج کی اہمیت ہوتی ہے۔
حکیم سیداحمد خاں کا سفر خاصا طویل ہے۔ ان کی پیدائش یکم جون 1962کو ضلع بستی میں ہوئی۔یہ کوئی عام بستی نہیں ہے بلکہ قاضی عدیل عباسی اور جلیل عباسی جیسی نابغہ روزگارشخصیات کا وطن ہے۔ انھوں نے گورکھپور میں تعلیم حاصل کی۔ بی ایس سی اور بی یو ایم ایس کرنے کے بعد یونانی کونسل(سی سی آر یوایم) میں ملازمت کا آغاز کیا۔ کئی شہروں کی خاک چھانتے ہوئے دہلی کی سنگلاخ سرزمین میں قدم رنجہ فرمایا اور پھرہم سبھوں کی طرح اسے ہی اپنا وطن بنالیا۔ انھوں نے سب سے زیادہ عرصہ ابوالفضل انکلیو کی یونانی ڈسپنسری میں گزارا۔کچھ ستم ظریفوں نے ان کی اردو دوستی سے بیزار ہوکر ان کا تبادلہ میرٹھ کردیا، جہاں سے وہ روزانہ’اپ اینڈ ڈاؤن‘ کرتے تھے۔لیکن کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔بعدکورام منوہر لوہیا اسپتال کے یونانی شعبہ سے وابستہ ہوگئے اور پچھلے سال صفدر جنگ اسپتال کے یونانی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے سبکدوش ہونے کے بعد دریا گنج میں اپنا یونانی دواخانہ کھول لیا، لیکن یہاں بھی ان کے سینے میں اردو کا درد کم نہیں ہوا ہے۔طب یونانی اور اردو زبان کا فروغ ان کا مقصد حیات ہے۔ وہ اس کام کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی پروگرام ترتیب دیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ہاں نماز کبھی قضا نہیں کرتے۔
اردو بیزاری کے اس دور میں انھیں اردو کی بیماری کہاں سے اور کب لگی یہ مجھے نہیں معلوم، مگر میں نے انھیں ہمیشہ اردو کے غم میں مبتلا پایا ہے۔ غم بھی ایسا کہ اس کا مداوا آسان نہیں۔ ایک ایسے دور میں جب اردو کی سیڑھی چڑھ کر نہ جانے کتنے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے، حکیم سیداحمد خاں ویسے ہی ویسے ہیں۔ انھوں نے اردو زبان اور یونانی پیتھی کے درمیان تال میل کیسے قایم کیا، یہ سمجھنے اور سمجھانے کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں یونانی کے اطباء نہایت خوشخط ہوا کرتے تھے۔وہ خط شکستہ میں جو نسخہ لکھتے تھے، اسے صرف عطار ہی پڑھ سکتے تھے۔لیکن آج طب یونانی سے وابستہ افراد اردو میں نسخہ نویسی کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ 90 فیصد یونانی پریکٹس کرنے والے انگریزی میں دواؤں کے نام لکھتے ہیں۔میں نے اپنی طالب علمی کے دورمیں کچھ دنوں دہلی کے لال کنواں پر واقع ہمدرد دواخانہ میں خوشنویسی کی تربیت حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمدرد دواخانے میں حکیم عبدالحمید نے اپنے دور کے بڑے خطاطوں کو دواؤں کے نام لکھنے کے لیے ملازم رکھا تھا، لیکن آج وہاں بھی کوئی کاتب موجود نہیں ہے۔ اس میں مجھے کمپیوٹر کی کرشمہ سازی سے زیادہ کتابت سے بیزاری نظر آتی ہے۔
حکیم سید احمدخاں اردو زبان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ اپنی تنظیم اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے تحت وہ گاہے بہ گاہے کوئی نہ کوئی تقریب برپا کرتے ہیں۔انھوں نے اب سے 25 برس پہلے جو پودا لگایا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔انھوں نے 1997میں علامہ اقبال کے یوم پیدائش پرہرسال ’یوم اردو‘ منانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ اب ملک گیر پیمانے پر عام ہوچکا ہے۔ اس عنوان سے وہ ہرسال 9/نومبر کو دہلی میں ایک بڑا پروگرام منعقد کرتے ہیں۔اپنے پروگرام میں ہر کسی کو شریک کرنے کا شوق کبھی کبھی مشکلات بھی پیداکرتا ہے۔ ان کی نرم مزاجی کا فائدہ اٹھاکر موقع شناس لوگ ان کے اسٹیج کااستعمال اپنی شہرت کے لیے کرتے ہیں۔ کئی لوگ اپنی کتابیں اجراء کے لیے لے آتے ہیں۔کچھ یونانی کمپنیاں اپنے پروموشن کے لیے دوائیں لے کر وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ کوئی دنت منجن لے کر آتا ہے تو کوئی شاعر بہر صورت اپنا کلام سنانا چاہتا ہے۔ غرض یہ پروگرام معجون مرکب بن جاتا ہے۔اسے دیکھ کر ٹرین کی وہ جنرل بوگی یاد آئی ہے جس میں ہر کس و ناکس کو اپنا سامان فروخت کرنے کا پیدائشی حق ہوتا ہے۔اس میں موم پھلی اور دنت منجن سے لے کر سردرد کا بام اور نہایت بے ذائقہ چائے تک شامل ہوتی ہے۔حکیم سید صاحب کسی کو کبھی ’نہ‘ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کوناراض کرنے کا جوکھم اٹھاتے ہیں۔
میں نے ایک روز انھیں ایک بوڑھی عورت کا قصہ سنایا تھا، جو روزانہ اپنی ضرورت کی لکڑیاں جمع کرنے گاؤں سے جنگل کی طرف آتی تھی۔ راستے میں ایک تالاب تھا جس کا پانی عموماً گھٹنوں تک رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ عورت لکڑیاں جمع کرکے گاؤں کی طرف واپس جارہی تھی تو تالاب میں گردن تک پانی جمع ہوگیا۔ اس نے ایک نوجوان سے گزارش کی کہ وہ اسے اپنے کاندھوں پر بٹھاکر تالاب پارکرادے۔نوجوان نے بوڑھی عورت کو کاندھے پر بٹھاکر ابھی آدھا تالاب ہی پار کیا تھا کہ پیچھے سے ایک بوڑھے آدمی نے اسے آوازدے کرکہا کہ ”بیٹا ہمیں بھی ساتھ لے لو۔“ نوجوان نے بیچ تالاب میں بوڑھی عورت سے اترنے کو کہا۔ عورت نے کہا بیٹا ہم مرجائیں گے۔ نوجوان نے کہا کہ اب ہمیں ابّا کو کاندھے پر بٹھانا ہے۔ ہم منع کسی کو نہیں کرتے۔“
یہ واقعہ سن کر حکیم صاحب نے زوردار قہقہہ لگایا مگرانھوں نے آج تک اپنی روش تبدیل نہیں کی۔خدا انھیں تادیر سلامت رکھے۔ حکیم سید احمد