تہذیب و ثقافت

ہندی اردو کے پاسباں پدم شری انور جلالپوری

پدم شری انور جلالپوری کی پانچویں برسی پر تہِ دل سے خراجِ عقیدت

بزم شعر و سخن کی جاں انور

معتبر    مستند      زباں    انور،

ہندو مسلم سبھی یہ کہتے ہیں

 ہندی،  اردو  کے  پاسباں   انور،

شیزا  جلالپوری

6جولائی 1947 سے 2جنوری 2018تک کا سفر

2/ جنوری 2018 کو  انور جلالپوری کا انتقال اردو ادب کا ایک عظیم خسارہ تھا۔ جس کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے فن نظامت کو ایک نئی بلندی عطاء کی – اپنی پرکشش آواز اور منفرد لب و لہجے سے عالمی سطح  پر مقبولیت حاصل  کرنے والے اس عظیم شاعر مفکّر  کو تہِ دل سے خراجِ عقیدت،انور جلالپوری ایک عظیم ناظم، شاعر، ادیب، خطیب اور بھی کئی خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے۔

ان کی اعلیٰ نظامت کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضامن ہوا کرتی تھی، اس کے ساتھ ہی ان کے یہاں زہانت اور صداقت سے سوچنے والی اخلاص و درد کے ساتھ محسوس کرنے والی اور سلیقہ و اطمینان کے ساتھ اظہار کرنے والی شاعری کا انبار ہے، انکی گفتگو کا انداز شاعرانہ ہے، وه کم گو ضرور ہیں لیکن خوش گو کمال کے ہیں، اور انکی حاضر جوابی کا کوئی جواب ہی نہیں ، غزل انکی محبوب صنف ہے، وه غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم نثر نگار بھی ہیں، اور یہ تمام کمالِ فن انھیں علمی ریاضت سے حاصل ہوا ہے-

    یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انور صاحب جدیدیت کے شاعر تھے۔  انکی زبان اتنی سادہ اور سستہ تھی کہ ایک  عام انسان کو بھی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی تھی۔

ایک سچے شاعر کی زندگی نہ جانے کتنے غم و آلام سے بھری ہوتی ہے۔ ہزاروں ملاقاتیں ،ہزاروں اسفار،  ہزاروں شامیں،  ہزاروں راتیں، ہر رات اور ہر دن کی ایک نئی کہانی ، ہر کہانی الف لیلیٰ کی داستان سے زیادہ دلچسپ، کیسی کیسی حسین بزم آرائیاں،یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کا ہر صفحہ کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہی ایک عظیم شاعر ہوتا ہے ۔ جسے ہماری آنے والی نسلیں بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔

انور صاحب کی اب تک 24 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ، جس میں چار غزلوں کا مجموعہ ،کھارے پانیوں کا سلسلہ، خوشبو کی رشتہ داری ، جاگتی آنکھیں، پیار کی سوغات، اس کے علاوہ پانچ نعتیہ شعری مجموعے ، جمال محمد، ضرب لا الہ، حرف ابجد، بعد از خدا ، اور راہرو سے رہنما تک نمایاں ہے- انور صاحب کی نثر بھی کمال ہے،،۔روشنائی کے سفیر،، اور سیریل ،، اکبر دی گریٹ ان کے شاہکار ہیں۔

  بالی ووڈ کی مشہور فلم ( ڈیڑھ عشقیہ) میں بھی وه اسی انداز میں نظر آئے ، جس کے لئے وه جانے جاتے ہیں، انھوں نے حمدیہ،  نعتیہ، غزلیہ،  نظمیہ، گیت اور نغمے ہر صنف پر طبع آزمائی کی- اردو ان کی مادری زبان تھی- ہندی انکی قومی زبان تھی ، انگریزی کے وه لکچرر تھے- عربی سے انھوں نے تیسویں پارے، سنسکرت سے شریمد بھگوت گیتا ، فارسی سے رباعیات خیام اور بنگلہ سے ٹیگور کی گیتانجلی کا منظوم ترجمہ کیا۔

انور صاحب کا سب سے عظیم الشان  کارنامہ (قرآن کے تیسویں  پارے عم کا منظوم ترجمہ ہے، جو ک ( توشہ آخرت ) کے نام سے شائع ہوا  اور جسے اردو ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔

سورہٴ فاتحہ

ہے   تعریف  ساری  خدا  کے  لیے

جو کن کہہ دے اور ساری دنیا بنے

وہی رب تو سارے جہانوں  کا  ہے

مکانوں کا   اور   لا مکانوں  کا ہے

 سورہ النبا

یہ  کیا  جاننا  چاہتے  ہیں   بھلا

یہ  کیا  پوچھنا   چاہتے  ہیں بھلا

قیامت  کی  ان  کو خبر  ہی نہیں

ہے جو اصل ڈر اس سے ڈر ہی نہیں

یوں تو انور صاحب کے متعدد کارنامے ہیں لیکن گیتا کا منظوم ترجمہ اپنی مثال آپ ہے، ہندوستان جیسے ملک میں ایسے کاموں کی شدید ضرورت ہے- تین سو صفحات پر مشتمل اس ترجمے میں جس کا نام ہے (اردو شاعری میں گیتا) انتہائی سادہ، سہل اور عام فہم زبان استمعال کی گئی ہے کہ قاری کو بہت آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔

بھگوت گیتا کے کچھ اشعار

اشلوک نمبر ایک

دهرت راشٹر آنکھوں سے محروم تھے

مگر  یہ  نہ سمجھو   کہ   معصوم تھے

انھیں بھی تھی خواہش کہ دنیا ہے کیا

اندھیرا   ہے کیا   اور   اجالا    ہے   کیا

اشلوک نمبر 10

ہمیں فخر   بھیشم پتامہ پہ ہے

کہ  جن کا   اثر ساری دنیا پہ ہے

وہی اپنی  فوجوں کے سالار ہیں

بہادر ہیں یاروں کے بھی یار ہیں

اشلوک نمبر 11

اب اس حال میں کورووں جان لو

حقیقت   ہے کیا  اب   اسے  مان لو

سدا  اب   یہی  شان و شوکت رہے

پتامہ   کی    عزت    سلامت   رہے

اشلوک نمبر 14

ادھر کرشن ارجن بھی بیتاب ہیں

یہ دونوں ہی خورشید و مہتاب ہیں

اشلوک نمبر 20

یہ منظر  جو  ارجن  کو آیا نظر

اٹھایا دھنش اس نے بھی بے خطر

انور صاحب نے رابندر ناتھ ٹیگور کی طویل نظم ( گیتانجلی) کا بھی منظوم ترجمہ کیا ہے ، وه خود کہتے ہیں۔

یہ بھی میرا دیوانہ پن ہے کہ میں ان نظموں کو اردو شاعری میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

گیتانجلی کے کچھ اشعار

تیری مرضی

تیری مرضی  بنایا تو  نے لا  محدود مجھ کو بھی

یہ عزت بخش دی ہے اے مرے معبود مجھ کو بھی

جو تیری بخششیں ہیں وه مرے ہاتھوں کو ملتی ہیں

ہزاروں سال  تک یہ  بخششیں  مجھ  پر  برستی ہیں

اجالا

ترے نغمات سے ہی ساری دنیا میں  اجالا ہے

ترے نغموں کا چلتا آسمانوں تک میں سکہ ہے

بھجن

بھجن ،مالا میں اور منتروں میں تو کچھ بھی نہ پائے گا

یہ ایسے   کام   ہیں   جن  میں  تو  اپنے  کو   گنوائے   گا

دعا

دعا یہ ہے کہ جب میں تھک چکوں تو نیند آ جائے

مرا   وشواس   ایسی   تندرستی   ہی   مزہ   پائے

حمدیہ شاعری

تیرے ہی اک لفظ کن کے صدقے میں بن گئی کائنات ساری

ازل سے  یوم النشور  کی شام تک  ہے تیرا ہی فیض جاری

حسین تر ہے،عظیم تر ہے، یہ رتبہ لازوال تیرا

تیرا ہی ذکر بلند کرنا جہاں میں شاعر کی آبرو ہے

یہی تو انور  کی ہے تمنا ، یہی تو انور کی آرزو ہے

تو  مصوّر ہے  مرا  اور  تیری تصویر ہوں میں

مجھ کو سر سبز بنا تیری ہی جاگیر ہوں میں

یا رب دل مومن کی آہوں میں اثر دے دے

بازوئے مسلماں  کو جبریلؑ  کے پر  دے دے

نہ یہ دن نہ یہ رات باقی رہے گی

بس اللّه  کی  ذات  باقی  رہے گی

یا رب دل مومن کی آہوں میں اثر دے دے

بازو ئے مسلماں کو جبریل کے پر دے دے

نعتیہ شاعری

سرکارؐ نے دکھائی جو صورت زمین پر

ہونے  لگی  خدا  کی  عبادت   زمین  پر

آپؐ  سرکار  ہیں   تخلیق  دوعالم  کا  سبب

آپؐ کو دیکھ کے سیکھا ہے فرشتوں نے ادب

تیرے لیے ایک گام عرش معلی کی راہ

تیری غلامی کریں دہر کے سب کج کلاہ

اولیں  شہود  و شاہد  اور   اشہد بن گیا

اس زمیں پر جب وہ آیا تو محمد بن گیا

وه نبی جس کا فرشتوں پر بھی واجب احترام

وه  نبی  جو  روز  اول  سے  ہے  نبیوں  کا  امام

نور احمد جو بنے ٹکڑا اس کی نوری ذات کا

جو بلا شک ہے  سبب تخلیق موجود ذات کا

غزلیہ شاعری

پہلے لوگوں میں محبّت تھی ریا کاری نہ تھی

ہاتھ اور دل دونوں ملتے تھے اداکاری  نہ تھی

اس ناامید شخص نے یوں کی ہے خودکشی

ناخن   کی   تیز   دھار   کو   خنجر بنا  لیا

قتل دو اک رہ زنی اس کے علاوہ شہر  میں

خیریت  ہی  خیریت  ہے حادثہ  کوئی  نہیں

میں اک چراغ ہوں دیوار ہے نہ چھت میری

ہوائیں  کرتی ہیں  پھر  بھی  مخالفت  میری

تم سے ملتی جلتی میں آواز کہاں سے لاؤں گا

تاج محل  بن  جاۓ  تو ممتاز کہاں سے لاؤں گا

قومی یکجہتی

ہم  کاشی  کعبہ کے  راہی  ہم  کیا جانیں جھگڑا بابا

اپنے دل میں سب کی الفت اپنا سب سے رشتہ بابا

ایک خدا  کے سب  بندے  ہیں  اک  آدم  کی  سب اولاد

تیرا میرا خون کا رشتہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

آؤ پھر عہد کریں دیش کی رکچھا کے لیے

آؤ   پھر  عہد   کریں  امن و اہنسا  کے لیے

آؤ  پھر   عہد   کریں  رونق   دنیا  کے  لیے

مادر   ہند  کی   یکجہتی  و ایكتا  کے  لیے

آؤ طے کر لیں کہ اب جنگ نہ ہونے دیں گے

عرصہ زیست  بشر تنگ  نہ  ہونے دیں گے

نظمیہ شاعری

اس  اجڑے  ہوئے  ویرانے  میں

اس  ترسے   ہوئے  میخانے  میں

ہم جب  بھی کبھی انجانے میں

گیتوں  سے  بھری  کوئی   دنیا

آباد کریں تو آ جانا

چاروں طرف جلتے مکاں

ہر سمت پھیلا ہے دھواں

مایوس  ہر پیر   و جواں

مغموم  سب  کی داستاں

پرور   دگار   دو  جہاں

مجھ کو بتا جاؤں کہاں

خدا  کا شکر  بہت  بے مثال بیت گیا

ہماری عمر  کا  اک  اور  سال  بیت گیا

نہ جانے کتنے مسائل کا بار دے کے گیا

غموں کا بوجھ دل بے قرار دے کے گیا

ہمارا غم کہ فضاؤں میں تلخیاں ہیں بہت

قدم  قدم پہ  یہاں  بد  گمانیاں   ہیں  بہت

شاہوں کی حکومت بھی فنا ہو کے رہے گی

جمہور  کی  طاقت  بھی  فنا  ہو کے رہے گی

خوشیاں ہی نہ ہنگامہء آلام رہے گا

آخر  وہی  اللّه  کا  اک  نام  رہے گا

گیت اور نغمے

ایک لڑکی ہے تو ایک تتلی ہے تو

نام تیرا ہے  کیا تیرا گھر ہے کہاں

سسک رہی ہے زندگی حیات بانٹ دو

تم  آج اپنے حسن کی زکات بانٹ دو

نہ تو پاس ہو  نہ تو دور ہو

تم نشہ تو نہیں ہو سرور ہو

چاندی سا بدن تیرا، پھولوں سے وچن تیرے

کر دیتے ہیں  کتنوں  کو گهائل یہ  نین تیرے

تم    پرستان  کی   اک   پری   ہی  سہی

اور    آنکھوں   میں  جادوگری  ہی   سہی

 پھر بھی جس وقت چاہونگا میں جان من

بانسری بن کے ہونٹوں سے لگ جاؤں گا

جس لڑکی سے پیار ہے مجھ کو وه لڑکی البیلی ہے

سر سے  پاؤں  تلک وه  گوری  چمپا اور چمیلی ہے

اردو  ادب سے انور صاحب کی دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے عظیم شاعر”مرزا غالب”۱۰۰ویں برسی پر اپنے آبائی وطن جلالپور میں ( مرزا غالب انٹر کالج ) نام کا ایک ادارہ قائم کر دیا، جس میں ہر سال سینکڑوں غیر مسلم طلبا اردو سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اور جو آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن اور رواں دواں ہے۔

بارہا انور صاحب کو سینکڑوں اعزازات سے نوازا جا چکا ہے- بھگوت گیتا اور گیتانجلی کے لیے حکومت ہند اور حکومت اتر پردیش نے انھیں اعزاز سے نوازا۔

انور جلالپوری ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے علمبردار تھے ، اور انسانیت کے پیر و کار تھے۔ادب کا  چمکتا ہوا ستارہ جو ہمیشہ اپنی آواز ، اپنے لہجے ،اپنے خوبصورت لفظوں  اور اپنے دلکش انداز کے لئے ہمارے دلوں میں روشن رہے گا۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago