مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام یاد دارا شکوہ : سیمینار اور ڈرامہ کا انعقاد
مدھیہ پردیش اردو اکادمی،محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ’’یاد دارا شکوہ : سیمینار اور ڈرامہ کی پیشکش‘‘ کا انعقاد 6 ستمبر 2022 کو دوپہر 3 بجے سے ٹرائبل میوزیم، شیاملہ ہلس،بھوپال میں کیا گیا۔
پروگرام کی شروعات میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے تمام مہمانان کا استقبال کرنے کے بعد پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دارا شکوہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے علمبردار تھے۔
ان کی شخصیت اور ان کا فن ہندوستانی تہذیب کے لیے وقف شدہ تھے۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ویدوں اور اپنیشدوں کا بھی وسیع مطالعہ کیا۔
دارا شکوہ کی شخصیت اور فن کو جاننے، سمجھنے کے بعد عوام کو خود فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی کہ اُن کو اسلام کا کون سا رُخ قبول کرنا چاہیے۔کٹر مذ ہبی رُخ یا صوفیوں والا مذ ہبی رجحان جس کا نمائندہ داراشکوہ ہے۔
سیمینار کی صدارت فرما رہے معروف ادیب اور مفکر ڈاکٹر نریش نے کہا کہ داراشکوہ شدت پسندی کے خلاف سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کا نمائندہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی تعلیمات اور فلسفے کو پڑھیں اور اس کے افکار کو سمجھیں۔
لکھنؤ سے تشریف لائے معروف ادیب اور شاعر ڈاکٹر عباس نیر نے اپنے مخصوص انداز میں خطاب فرما کر سامعین سے خوب داد و تحسین وصول کی۔
انھوں نے کہا کہ دارا شکوہ اس ہندوستان کی ترجمانی کرتا ہے جو ویدوں کا ہندوستان ہے، جو گیتا کا ہندوستان ہے، جو وسو دیو کٹمب کم(پوری دنیا ایک خاندان ہے) کا ہندوستان ہے، جو ستیم شیوم سندرم کا ہندوستان ہے، جو میر و غالب اور مومن کا ہندوستان ہے، جو رویندر ناتھ ٹیگور کا ہندوستان ہے، جو شاعر مشرق علامہ اقبال کا ہندوستان ہے،
یعنی ہندو مسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر اس کی تاریخ لکھی ہے اور آپس میں شیر و شکر ہوکے زندگی گزارنے کے اسی صوفیانہ سلیقے اور فلسفیانہ شعور کا اصطلاحی نام دارا شکوہ ہے. اس کے خیالات اور فلسفے کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے اس صوفی پر سیمینار کا انعقاد کیا۔
ڈاکٹر محمد اعظم نے کہا کہ دارا شکوہ اسلام اور صوفی خیالات کو وحدانیت سے جوڑ کر دیکھتا تھا کیونکہ ہندو مت / درشن میں ایک ایشور واد ہے جو توحید سے میل کھاتا ہے. وہ سبھی مذاہب کو ایک مانتا تھا، اس کا کہنا تھا نک مختلف مذاہب میں بھگوان ہیں، مگر سب کا ایشور ایک ہے۔
سینئر صحافی علیم بزمی نے کہا کہ داراشکوہ اپنیشد اور ہندوستانی فلسفے کا علم رکھتا تھا۔دارا اس بات کو لے کر حیران ہوتا تھا کہ سبھی مذہبوں کے مفکرین اپنی اپنی تشریحات میں الجھے رہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ان سبھی کا بنیادی عنصر تو ایک ہی ہے۔
اس موقع پر محمد حسن کا تحریر کردہ ڈرامہ “دارا شکوہ” پردیپ اہروار کی ہدایت کاری میں رنگ محلہ سوسائٹی فار پرفارمنگ آرٹ کے ذریعے پیش کیا گیا جس میں عدنان خان نے دارا شکوہ کا کردار نبھایا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض بدر واسطی نے بحسن خوبی انجام دیے۔
پروگرام کے آخر میں ممتاز خان نے مدھیہ پردیش اردو اکادمی کی جانب سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…