مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ’’افسانے کا افسانہ‘‘ کے تحت’’فکشن کے جدید رجحانات ‘‘موضوع پر پروگرام کا انعقاد 6 اگست 2023 کو شام بجے سے ٹرائبل میوزیم آڈیٹوریم، شیاملہ ہلس، بھوپال میں ہوا۔
پروگرام کی شروعات میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے تمام مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے پروگرام اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ اردو اکادمی کے ذریعے ہر سال فکشن پر مبنی پروگرام’’ افسانے کا افسانہ‘‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس سال یہ پروگرام ’’فکشن کے جدید رجحانات‘‘ موضوع پر مبنی ہے۔
انھوں نے آگے کہا کہ ادب کے دو فکری اسکول ہیں، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی ۔ ادب برائے ادب یعنی میرا غم میری خوشی، میرا احساس، اکثر شاعری میں یہ فکری اسکول زیادہ کام کررہا ہوتا ہے۔لیکن کوئی بھی صنف ہو، فکشن ہو، ناول، افسانے ، مختصر افسانے سب میں سماجی سروکار ہونا ہی چاہیے۔
یہ کوئی نیا خیال نہیں ہے خاص طور پر ہندوستان میں تو بالکل بھی نیا نہیں ہے۔ یہاں کے ادبا نے ہمیشہ سے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج میں جو کچھ اچھا ہے یا برا اس کو بیان کیا ہے۔ اردو ہندی دونوں ہی زبانوں کے فکشن میں سماجی شعور بھرپور ملتا ہے۔ آج اس کی اہمیت اور ضرورت دونوں بڑھی ہیں۔ انھیں مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اردو اکادمی کے پروگراموں میں اردو اور ہندی دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
پروگرام کی صدارت ہندی کی معروف ناول نگار پدم شری اوشا ٹھاکر نے فرمائی۔ انھوں نے کہا کہ افسانے کا افسانہ یہی ہے کہ کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں، ادب میں کئی اصناف تھیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت کم ہوتی گئی لیکن کہانیوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوسکتیں اور یہی افسانے کا افسانہ ہے۔
علی گڑھ سے تشریف لائے معروف ادیب و ناقد پروفیسر شافع قدوائی نے معاصر فکشن پر اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کی۔انھوں نے کہا کہ ایم پی اردو اکادمی نے ایک اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے اور اس کے ذریعہ ہم آج کے فکشن کےجدید رجحانات کو سمجھ سکیں گے۔
پروفیسر شافع نے اپنے خطاب میں کہا کہ افسانے کا افسانہ ہم حقیقت یا ریالٹی کہتے ہیں وہ بھی ایک طرح کا افسانہ ہوتی ہے جس کو ہم زبان کے ذریعے خلق کرتے ہیں۔ تو اس پورے پیرائے کو جس کو ہم حقیقت کی عکاسی کہتے ہیں، حقیت کوئی آسمان سے نہیں اترتی بلکہ زبان کے ذریعے ہم چیزوں کو سامنے لاتے ہیں اور افسانہ بناتے ہیں۔
موجودہ منظر نامہ میں جو تبدیلی آئی ہے اورکس طرح سے ایک نیا معاشرہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو میڈیا اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ذریعہ ہمارے سامنے آرہا ہے تو اس نے کس طرح سے ہمارے افسانے کو متاثر کیا ہے۔انھوں نے ماڈرن فکشن میں آٹو فکشن،فلیش فکشن اور مائکرو فکشن کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی۔
جئے پور سے تشریف لائے ہندی کے مشہور ادیب ڈاکٹر اندو شیکھر تت پرش نے ہندی افسانوی ادب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا جیسے جیسے حالات بدلتے ہیں نئے رجحانات سامنے آتے ہیں۔آج افسانوی ادب میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں اور ہمارا افسانہ نگار ان کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ہم سبھی ان کا نوٹس لیں اور ان پر توجہ دیں۔ کہانی کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے پاس تحریری ڈرافٹ نہ بھی ہو تو کہانی زبانی ہی نسل در نسل سفر کرتی ہے۔
بھوپال کے سینئر ادیب اور محقق ڈاکٹر محمد نعمان خان نے معاصر اردوناولوں کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ جزوی یا کلی طور پر جن اردو ناولوں میں جدید ادبی رجحانات کی کارفرمائی یا عکاسی نمایاں نظر آتی ہے، ان میں کچھ ناول ایسے بھی ہیں کہ جن کا موضوع کلاسیکی یا روایتی ہے لیکن ان کی موثر پیش کش نے انھیں جدید رجحان کا حامل بنا دیا ہے ۔ مخصوص تاریخی، تہذیبی پس منظر، شعور کی رو کے اعتبار سے قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں مذکورہ بالا رجحانات نظر آتے ہیں۔ تحقیقی، تنقیدی، تاریخی اور تہذیبی عناصر، جزئیات نگاری، ڈرامائییت اور پختہ و دلچسپ بیانیہ نے شمس الرحمن فاروقی کے ناولوں کئی چاند تھے سر آسماں اور قبض زماں کو مثالی اور معیاری ناول بنا دیا ہے۔
بھوپال سے تعلق رکھنے والی ہندی کی مشہور افسانہ نگار کانتا رائے نے ہندی ادب کے مختصر افسانوں کے حوالے سے تفصیل سے گفتگو کی۔
بھوپال کے سینئر ادیب اور شاعر اقبال مسعود نے افسانچوں کے حوالے سےپرمغز گفتگو کی اور اپنا افسانہ کانچ کا آسمان پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ افسانچہ یا ادب میں کوئی دیگر نئی چیز آتی ہے اصلی میں یہ آتا ہے نئی جو تکنیک آتی ہے زمانے میں، نئے تجربے ہوتے ہیں وہ تخلیق پر اثرانداز ہوتے ہیں ان سے تخلیق بدلتی ہے اب جیسے الیکٹرانک میڈیا اور موبائل فون آگئے ہماری زندگی میں تو اسے نے شارٹ اسٹوری کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی اور ہم اس صنف میں لکھنے لگے۔
اس موقع پر لکھنؤ سے تشریف لائیں مشہور افسانہ نگار عشرت ناہید نے اپنے مخصوص انداز میں افانہ نئی ردا اور صباحت آفرین نے ’’سکھ کی نیند‘‘ پیش کیے۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر اعظم نے بحسن خوبی انجام دیے۔
پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر نصرت مہدی تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…