گل گلشن،ممبئی
’’سنو پتا ہے دوزخ میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی کیونکہ کچھ خواتین بہت زیادہ ناشکری اور نعمتوں کی ناقدری کرنے والی ہوتی ہیں اور تم ان میں سے ایک ہو۔تمہارے لیے کوئی بھی مرد کتنی بھی قربانیاں کیوں نہ دے دے۔
تم کبھی بھی خوش نہیں ہوتی۔کبھی کبھی تو اپنے لفظوں سے اگلے بندے کو توڑ دیتی ہو۔ اور اگلا بندہ برداشت نہیں کر پایا اور چونکہ وہ بھی ایک انسان ہے اسے بھی غصہ آ سکتا ہے۔
وہ اگر کچھ بول دے تو آگے سے تمہارا رونا دھونا اور مظلومیت کا قصہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر دنیا بھر میں تمہاری مظلومیت کے قصے مشہور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ مظلوم لفظ ہی عورت کے ساتھ وابستہ ہے۔
مرد کبھی مظلوم نہیں ہو سکتا۔مرد تو صرف ظالم ہوتا ہے۔کبھی سوچا ھے تم نے ہم مردوں پر کیا گزرتی ہے جب ہم سارا دن محنت مشقت کر کے دماغی پریشر جھیل کر گھر آتے ہیں اور آتے ہی بیوی کے طعنے شروع ہو جاتے ہیں۔تو ہم پر کیا گزرتی ہے۔
” احمر صاعقہ کو گھور کر دیکھتے ہوئے بولا۔ صاعقہ تو تعجب سے اپنے خاموش رہنے والے شوہر کو یک ٹک دیکھ رہی تھی کہ آج ان کے پاس زبان اور الفاظ کہاں سے آگئے۔ایسا نہیں تھا کہ وہ بری عورت تھی یا اسے شوہر سے محبت نہیں تھی لیکن ہم سب خود سے جڑے لوگوں کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا سوچتے ہوں گے ہمارے بارے میں وہ کیسا محسوس کرتے ہوں گے۔
بس یہی غلطی صاعقہ سے ہوئی۔ وہ اپنے جذبات تو شوہر سے بیان کر دیتی تھی کہ دن بھر کے بعد اب ذرا بھی میری کوئی بات نہیں سنتے۔ میں تو جیسےگھر کی نوکرانی ہوں۔ ہم کبھی باہر گھومنے نہیں جاتے۔ ہم کبھی باہر کھانا نہیں کھاتے۔
آپ کو تو میرا کوئی خیال نہیں ہے۔میرے لیے تو آپ کے پاس وقت ہی نہیں۔اور اس جیسی ہزاروں شکایتیں وہ اپنے شوہر سے کرتی تھی۔لیکن دوسری جانب شوہر کے ذہن میں تو آفس کے کام اسٹریس اور دوسری چیزیں چل رہی ہوتی ہیں۔اسے سب باتیں بری لگتی ہیں وہ اور زیادہ تناؤ محسوس کرسکتا ہے۔
اب غلط تو کوئی بھی نہیں ہے۔اور دونوں کی اپنی اپنی اپنی ضرورتیں ہیں لیکن ضرورت اور خواہش میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ضرورت پوری کرنی پڑتی ہیں اور خواہش تو کسی بادشاہ کی بھی ادھوری رہ سکتی ہیں۔ایسی صورت حال میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی جائے۔
ایک دوسرے کے جذبات کو اہمیت دی جائے۔ کیونکہ جب ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم ایک دن خود بخود ایک ایسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے اور بہت تنہا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔جن سے ہم امید رکھتے ہیں۔
کیونکہ اس سے پہلے ہم نے کبھی کسی کی امید پوری نہیں کی ہوئی ہوتی تو پھر آج ہمارے ساتھ کوئی کیوں کھڑا ہوگا۔ہم نے کسی کے بارے میں پہلے کبھی سوچا ہی نہیں تو آج کوئی ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔جبکہ اپنی تمناؤں کو قتل کرکے اپنی خواہشوں کو مار کر دوسروں کے بارے میں سوچنا ایک بہت مشکل عمل ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ زندگی ہی کیا جو آسان ہو۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…