” نصف صدی کا قص٘ہ ” ایک جائزہ
ضیا فاروقی
اردو ادب کے عصری منظر نامے میں سید محمد اشرف کو
بحیٹیت افسانہ نگار یا ناول نگار جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے وہ نہ تو صارفی دنیا کی اشتہاریت کی دین ہے اور نہ ہی کسی رسالے کے مدیر کی مشاطگی کا رہین منت ۔وہ اپنی اوائل عمری سے ہی اس میدان میں نہ صرف سرگرم ہیں بلکہ صاحبان نقد و نظر ان کے فن کا اعتراف بھی کر چکےہیں ۔ چند افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کے دو ناول” نمبردار کا نیلا ” اور” آخری سواریاں ” بھی کافی مقبول ہوئے ۔ اور اب ” نصف صدی کا قصہ ” کے عنوان سے ان کا تازہ مجموعہ منظر عام پر آیا ہے جس میں پینتیس مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کہانیوں کے علاوہ ایک مکمل ناول” نمبردار کا نیلا ” بھی ہے ۔ سات سو تیرہ صفحات کا یہ خوبصورت مجموعہ جو عرشیہ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے قیمتاٗ سات سو پچاس روپیہ کا ہے ۔
سید محمد اشرف کا غالباٗ پہلا افسانہ جو میرے ناقص مطالعہ میں آیا تھا وہ ” ڈار سے بچھڑے ” تھا۔ تقسیم وطن نے صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کھول دو جیسی کہانیاں ہی نہیں دیں بلکہ وہ کہانیاں بھی وجود میں آئیں جن کو پڑھ کر آج بھی قاری کا پورا وجود جل تھل ہو جاتا ہے ۔ ” ڈار سے بچھڑے “بھی ایسی ہی کہانی ہے جس میں ہجرت کے زخموں سے لہو لہان ایک پوری نسل اپنا لہو خود چاٹتی نظر آتی ہے ۔ اور آج بھی اپنے ٹوٹے ہوئے بازوؤں کو پھڑپھڑاتے ہوئے ہجرت کے مارے نہ جانے کتنے لوگ اپنی مرزبوم کی طرف لوٹ جانے کا خواب لئے لمحہ لمحہ ذبح ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ” دوسرا کنارہ” جس کا تعلق آج کی اس نئی نسل سے ہے جو ملک کی تقسیم کے بعد وجود میں آئی ۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ آج مادیت نے ہمارے رہن سہن کو ہرچند کہ بدل دیا ہے لیکن ہمارے رسم و رواج اور ہماری باطنی فکر تقسیم نہیں ہوئی ہے ۔اسی فکر کو ” دوسرا کنارہ” کا روپ دیا گیا ہے۔
اودھ کی روایتی کلاسیکی قدروں کے امانت دار سید محمد اشرف یوپی کی ایک قدیم روحانی خانقاہ کے ایسے فردفرید ہیں جن کی پشت پر ان کے اپنے اجداد کے علم و امارت کا ایک وسیع سبزازار ہے ۔اسی سبزہ زار سے روشن ان کی آنکھو ں نے اپنے اطراف میں بکھری زندہ حقیقتوں کو اپنے قلم کی گرفت میں لے کر جو تابندہ کہانیاں لکھی ہیں ان کی تفہیم کے لئے نہ تو کسی شارح کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی لغت کی بلکہ ان کہانیوں کا لطف لینے کے لئے قاری کا درد آشنا ہونا شرط ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کہانیاں بیانیہ کی سطح پر سپاٹ یا اکہری ہیں ۔بلکہ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ بقول گوپی چند نارنگ یہاں واقعیت اور علامت کا ایسا امتزاج ملتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ان کی کہانیوں اور ناولوں میں جو علامتیں اور استعارے روشن ہیں یا جو منظر نگاری ہے وہ ہمارے مشاہدے کا حصہ تو ہے ہی بین السطور کی ترسیل کو بھی آسان بنا دیتی ہے۔ پھر خواہ منشی خاں کا کردار ہو جو تمام عمر محرومیوں کا شکار رہتا ہے اور اپنی کسی خواہش کی تکمیل نہیں کر پاتا ہے مگر دم توڑتے وقت اپنی چیچک زدہ اندھی اور بانجھ بیوی کو طلاق دے کر گویا اپنی ایک خواہش کی تکمیل کرلیتا ہے ۔ یا پھر افسانہ ” آدمی ” جس میں ایک بچہ جو ایک گاؤں سے چند میل دور قصبہ کے اسکول میں پڑھنے جاتا ہے اور شام کو گھر واپسی کے وقت کھیت باغ نہر کے سنسان راستوں سے گزرتے ہوئے ہمیشہ خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں جب دور کوئی آدمی دکھائی دے جاتا تو بچے کو بہت تقویت ملتی ہے اور وہ بے خوف ہو کر باغ سے گزر جاتا ہے ۔یہی بچہ جب جوان ہوکر شہر میں ملازمت کرنے لگتا ہے اور بدلتے سیاسی حالات کے تحت مذہبی شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور ایک مخصوص رنگ کی نفرت سے پورا ملک جھلس اٹھتا ہے ۔تو یہی آدمی اسی گاؤں کے سنسان راستے میں تنہا آدمی اس کے لئے خوف کی علامت بن جاتا ہے۔۔
موضوعاتی سطح پر اشرف کے قلم سے رنگ رنگ کی کہانیاں نکلی ہے ۔انھوں نے علامتی طور پر اگر ایک طرف جانوروں پرندوں کو موضوع بںایا وہیں برصغیر کی تقیسم کے بعد کی اس صورتحال کو بھی دردمندی کے ساتھ برتا ہے جس میں اودھ کے قصباتی ذمیندار اپنی انا اور اپنے وقار کی ہاری ہوئی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں ۔ “بلبلہ” جیسی کہانی اس کی بہترین مٹال ہے ۔
پچھلے دنوں افسانوی ادب میں جادوئی منظر نگاری کا بہت چرچا رہا ۔دیکھا جائے تو سید محمد اشرف کی بیشتر کہانیوں میں اساطیری یا جادوئی منظر نامہ موجود ہے جو ماضی سے حال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی بہترین مثال ” منظر ” ہے۔ اس کے علاوہ ” قدیم معبدوں کا محافظ” اور ” بڑے پل کی گھنٹیاں ” کا منظر نامہ بھی اسی سے عبارت ہے ۔
سید محمد اشرف نے عالمی سطح پر پھیلی دہشت گردی کو بھی پر اثر کہانی کا پیرہن عطا کیا ہے ۔ اس حوالے سے ” علامتی تشبیہ کی استعاراتی تمثل ” بھی ایک اہم کہانی ہے جس میں کسی ملک ۔تنظیم یا شخصیت کا نام لئے بغیر طالبان کا دور اقتدار اور اس سے ابھرے انتشار کو اس طرح پیش کیا ہے کہ متن سے زیادہ بین السطور لہو لہان نظر آتا ہے۔ مثلاٗ یہی اقتباس دیکھیں
” جماعت میں جو منصوبہ ساز تھے وہ قدرے عمر دراز تھے ۔انھوں نے نوجوانوں کو راغب کیا کہ کم از کم اپنے حلقۂ اقتدار اور اس کے نزدیکی علاقوں میں شرک کا نام اس طرح مٹانا ہے کہ صحرا میں ۔ وادی میں۔ پہاڑوں کے دروں کے آس پاس۔دریاؤں کے ساحل پر غرض کسی بھی عوامی مقام پر اگر ایسا کوئی نشان دیکھیں گے تو اس کو تہس نہس کردیں گے ۔اللہ نے ہماری مدد کے واسطے ہمیں ہر طرح کے اسلحوں سے لیس کر رکھا ہے ۔ دراصل وہ بارودی سرنگیں بچھا کر یا بم لگا کر چھوٹی بڑی اور منجھلی ہر قسم کی عمارت کو ڈھیر کرنے کے فن میں طاق ہو چکے تھے اور تجربے سے ان کے اعصاب ایک ان دیکھی طاقت سے معمور ہو چکے تھے “
اسی کہانی کا یہ اقتباس بھی اہم ہے کہ
” مقررہ عبادتوں کے بعد وہ اکثر بیٹھ کر اس مقولے پر بحث کرتے آیا معاف کردینا بدلہ لینے سے بہتر ہے ۔ہر مرتبہ آخری فیصلہ وہ اپنے ہی حق میں لیتے کہ جان کا بدلہ جان ہے ۔ کیونکہ کہ ان میں سے بعض کے بڑوں نے اور ان بڑوں کے بڑوں نے یا ان میں سے کسی ایک نے بذات خود یا غالباٗ ثقہ راوی یا ثقہ راوی سے کمتر درجے کے راوی سے سنا تھا کہ اس بارے میں قدماء میں تذبذب رہا ہے کہ معاف کر دینا بدلہ لینے سے بہتر والا مقولہ حقیقٹاٗ حدیث پاک کا حصہ ہے یا عراقِ عرب یا عراق عجم یا خراسان یا ہندوستان کے کسی ایسے برگزیدہ بندے کا عجلت میں کہا گیا رواروی والا مقولہ ہے جن کی قبور پر عرسوں کا ہجوم ہوتا ہے “
متذکرہ مجموعے میں لکڑبگھا سیریز کی تین کہانیاں بھی ہیں
ایک بیحد متاثر کن منظری نگاری کے علاوہ زبان و بیان کی سطح پر بھی سید محمد اشرف کے یہاں جو ایمائیت ، اشاریت اور تہذیبی رچاؤ نظر آتاہے وہ انھیں کا حصہ ہے ۔دراصل قاضی عبدالستار ہوں یا سید محمد اشڑف دونوں کے یہاں اودھ کے شرفاء کی وہ زبان استعمال ہوئی ہے جس کی تکمیل میں نہ جانے کتنی تہذیبی دریاؤں کی پانی جذب ہوا ہے اور جو آج بھی ہماری گم گشتہ تہذیب کی امانتدار ہے