ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ معروف ادیب و شاعر ”
#چندر_بھان_خیالؔ صاحب . شاعر چندربھان خیالؔ
03؍اپریل 1946ء کو ببئی، ضلع ہوشنگ آباد (مدھیہ پردیش) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ساگر یونیورسٹی (ایم پی) سے گریجویشن کی اور صحافی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ تقریبا 50 برسوںسے قومی ثقافت اور ادب کی ترقی کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ انھوں نے کئی اردو روزناموں جیسے ”سویرا“، ”قومی آواز“ وغیرہ کے لئے کام کیا تھا۔ وہ ہندی ہفتہ وار ”بھاویہ بھارت ٹائمز“ نئی دہلی کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف قومی اور بین الاقوامی مشاعروں، اردو کانفرنسوں، ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں اور دانشورانہ اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا ہے۔ کئی کتابیں شائع ہوئیں ہیں جیسے ”شعلوں کا شجر (1979ء)، گمشدہ آدمی کا انتظار (1996ء) نظموں کا مجموعہ، کمار پاشی ایک انتخاب (1997ء) اردو اکیڈمی کے ذریعہ شائع ہوا۔ ، لولاک (حضرت محمدﷺ کی حیاتِ مبارک پر ایک طویل نظم) 2000ء ،سلگتی سوچ کے سائے-(2002ء) ہندی میں نظموں کا ایک مجموعہ، صبح مشرق کی اذان(نظموں کا مجموعہ)-2008ء اور کلیاتِ کمار پاشی (شائع کردہ) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان- 2012ء میں انھیں یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ، دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ، مکھن لال چترویدی راشٹریہ سمن (ایم پی)، ہندی اردو ساہتیہ سنگم ایوارڈ، لکھنؤ (یوپی)، قومی یک جہتی کے لئے آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس ایوارڈ جیسے مختلف ایوارڈز اور اعزازات ملے ہیں۔ نئی آواز نئی دہلی ایوارڈ برائے شاعری (لولاک)، شاعری کے لیے مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی کا شعری بھوپالی ایوارڈ وغیرہ۔
2020ء میں چندر بھان خیالؔ کو ایم پی اردو اکیڈمی کا وائس چیئرمین بنایا گیا۔
پیشکش : شمیم ریاض
صرف اک حد نظر کو آسماں سمجھا تھا میں
آسمانوں کی حقیقت کو کہاں سمجھا تھا میں
خود ملا اور مل کے وہ اپنا پتہ بھی دے گیا
جبکہ ساری کاوشوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
زندگی کا رنگ پہچانا گیا جینے کے بعد
دور سے اس رنگ کو اڑتا دھواں سمجھا تھا میں
مہربانوں سے ہمیشہ ہی رہے شکوے گلے
اور ہر نا مہرباں کو مہرباں سمجھا تھا میں
دے رہا تھا وہ صدائیں اور میں خاموش تھا
کشمکش کی اس گھڑی کو امتحاں سمجھا تھا میں
ہو گیا ہوں قتل بے رحمی سے ان کے سامنے
حیف جن لوگوں کو اپنا پاسباں سمجھا تھا میں
پاس سے دیکھا تو جانا کس قدر مغموم ہیں
ان گنت چہرے کہ جن کو شادماں سمجھا تھا میں
شاعر چندربھان خیالؔ
جستجو کے پاؤں اب آرام سا پانے لگے
اب ہمارے پاس بھی کچھ راستے آنے لگے
وقت اور حالات پر کیا تبصرہ کیجے کہ جب
ایک الجھن دوسری الجھن کو سلجھانے لگے
شہر میں جرم و حوادث اس قدر ہیں آج کل
اب تو گھر میں بیٹھ کر بھی لوگ گھبرانے لگے
دل میں آ بیٹھا ہے دیکھو دوریوں کا دیوتا
ہم جماعت کے تصور سے بھی اکتانے لگے
تم کسی مظلوم کی آواز بن کر گونجنا
یاد میری جب تمہیں شدت سے تڑپانے لگے
لے رہا ہے درد انگڑائی اٹھا وہ احتجاج
زخم خوردہ سب پرندے پنکھ پھیلانے لگے
کام ایسا کیوں کیا جائے کہ جس کے بعد میں
آدمی اپنے کیے پر آپ پچھتانے لگے
زندگانی رنج اور غم کے سوا کچھ بھی نہیں
اف کہ ہر دم سوگ و ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں
روز و شب اپنے گزر جانا دیار غیر میں
داستان عزم محکم کے سوا کچھ بھی نہیں
کون دہشت گرد ہے اور کون ہے دہشت زدہ
یہ سب اک ابہام پیہم کے سوا کچھ بھی نہیں
گونجتی ہے خامشی ہر دم جو میرے چار سو
در حقیقت شور عالم کے سوا کچھ بھی نہیں
تم جسے سمجھے ہو دنیا اس کے آنچل کے تلے
گیسوؤں کے پیچ اور خم کے سوا کچھ بھی نہیں
دیکھتا رہتا ہے بندوں پر مسلسل سختیاں
کیا خدا اک اسم اعظم کے سوا کچھ بھی نہیں
دیوتا سی فکر اور طرز عمل کے باوجود
آدمی بس ابن آدم کے سوا کچھ بھی نہیں