تہذیب و ثقافت

ایم پی اردو اکادمی  کے زیر اہتمام کھرگون میں سلسلہ اور تلاشِ جوہر کے تحت بیاد شکیل احمد شکیل اور عبدالرشید کیف، ادبی اور شعری نشست منعقد

میرے عیبوں پہ چرچا ہو تو گونگے بول پڑتے ہیں

مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ کھرگون کے ذریعے ’’سلسلہ اور تلاشِ جوہر ‘‘ کے تحت آنجہانی شکیل احمد شکیل اور عبدالرشید کیف کی یاد میں شعری و ادبی نشست کا انعقاد 2 جولائی ، 2023 کو دوپہر بجے سوم گارڈن، کھرگون میں ضلع کوآرڈینیٹر قیام الدین قیام کے تعاون سے کیا گیا۔

اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کھرگون کا پروگرام جن دو شخصیات آنجہانی شکیل احمد شکیل اور عبدالرشید کیف کی یاد میں منعقد ہوا ۔ان کی ادبی خدمات کے تعلق سے جاننا ہم سب کے لیے باعث مسرت ہے۔ کھرگون کی اس طرح کی ادبی وراثت کے بارے میں لوگوں کو کم معلومات ہے تو خاص طور پر اس نظریے سے یہ پروگرام ہم سب کے لیے اہم اور بامقصد ہے۔

کھرگون ضلع کے کوآرڈینیٹر قیام الدین قیام نے بتایا کہ منعقدہ ادبی و شعری نشست دو اجلاس پر مبنی رہی۔ پہلے اجلاس میں دوپہر 3 بجے تلاش جوہر کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع کے نئے تخلیق کاروں نے فی البدیہہ مقابلے میں حصہ لیا۔

اس مقابلے میں حکم صاحبان کے طور پر بڑوانی کے سنیئر شاعر عبدالقادر حنفی اور دھار کے مشہور شاعر قمر ساقی موجود رہے جنہوں نے نئے تخلیق کاروں کو اشعار کہنے کے لیے دو طرحی مصرعے دیے جو درج ذیل ہیں۔

وہ بے ثمر درخت بھی پھل دار ہوگیا(شکیل احمد شکیل) 

میں منور نہ سہی، تم تو منور ہونا (عبدالرشید کیف) 

مندرجہ بالا مصرعوں پر نئے تخلیق کاروں کے ذریعے کہی گئی غزلوں اور ان کی پیشکش کی بنیاد پر حکم صاحبان کے متفقہ فیصلے سے شارق علی شارق نے اول، عتیق علی عاطف نے دوم اور  شفقت علی صفر نے سوم مقام حاصل کیا۔تینوں فاتحین نے جو اشعار کہے وہ درج ذیل ہیں۔

خود کی آواز کا ماں باپ سے اوپر ہونا

اپنی جنت سے اسے کہتے ہیں باہر ہونا

شارق علی شارق

اب تک نہیں ہوا ہے وہ اس بار ہوگیا

جو کل تلک تھا پھول وہ اب خار ہوگیا

عتیق علی عاطف

میرا قد اتنا بڑھایا ہے دعا نے ماں کی

لوگ چاہتے ہیں میرے قد کے برابر ہونا

شفقت علی صفر

دوسرے اجلاس میں شام 5 بجے سلسلہ کے تحت شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کھرگون کے سینئر استاد راز ساغری  نے کی۔پروگرام میں مہمانان ذی وقار کے طور پر آصف فتح (ضلع صدر، بی جے پی اقلیت یووا مورچہ)، عبدالرحیم خان اور بنٹی چھابڑا موجود رہے۔ نشست کی شروعات میں کھرگون کے سینئر ادیب ڈاکٹر اکبر علی نے کھرگون کے مشہور شعرا آنجہانی شکیل احمد شکیل اور عبدالرشید کیف کے فن و شخصیت پرگفتگو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔

انھوں نے جہاں شکیل احمد شکیل کے فن و شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شکیل احمد شکیل ایک مستند شاعر تھے۔کلامِ شکیل کے مطا لعہ سے ہمیں شکیل کھر گونوی کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔شکیل کھر گونوي کو خدا داد قابلیت اور قوت شعر گوئی کی بدولت کھرگون کے ہی نہیں بلکہ نماڑ کے شعر و ادب میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اردو غزل کے علاوہ انگریزی کے سانیٹ اور ہائیکو وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ہندی میں ایک نظم ’’ انورودھ‘‘ انسانیت کے نام لکھی ہے۔ ان کے  کلام میں دوہے چوپائیاں بھی ملتی ہیں۔

وہیں انھوں نے عبدالرشید کی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرشید کیف کی شاعری کہیں حسن و عشق کے پیکر میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے تو کہیں عصری مسائل کی ترحمانی کرتی نظر آتی ہے۔ کیف نے ملکی و عالمی مسائل کے ساتھ حبِ وطن کے جذبات سے مملو خیالات بھی پیش کیے ہیں۔ ان کی شاعری اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ ان کے فن اور ہنر کی نمائندگی کرتی ہے۔

شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں۔

میری آنکھوں کو دے کے بیساکھی

وہ کہیں جاکے سوگیا تو نہیں

واجد ساغری

کوئی پرزور ہوا ایسی چلا دے یارب

سارے عالم میں پہنچ جائے امن کی خوشبو

عبدالقادر حنفی

وہ ایک شور جو برپا نہیں ہوا ہے ابھی

جو ہوگیا تو یہاں خامشی مچا دے گا

قمر ساقی

مختصر یہ ہے بس ٹھیک ہیں بہتر ہیں، اگر

داستاں اپنی سنائیں تو زمانے لگ جائیں

سید منصور علی کمال

ہمیں ہر حال میں اپنی زمیں سے پیار کرنا ہے

اگر ہم مر بھی جائیں تو یہ مٹی ساتھ رہتی ہے

قیام الدین قیام

مجھے آسان راہوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

میں منزل تک پہنچنے کے نئے رستے بناتا ہوں

ساجد پرواز

یہ واہ واہ اداکاریوں سے ملتی ہے

امید عاجزی نہ التماس پر رکھیے

زاہد شاہ

جان نچھاور کردیں گے ہم یاروں اس کی شان پر

آنچ نہ آنے دیں گے لیکن پیارے ہندوستان پر

ریاض فگار

میری خوبی پہ رہتے ہیں یہاں اہل زباں خاموش

میرے عیبوں پہ چرچا ہو تو گونگے بول پڑتے ہیں

عبدالحمید بشر

میں تمھیں چھوڑ کے پردیس نہ جاؤں گا کبھی

دوریاں ہوتے ہی جذبات بدل جاتے ہیں

ناظم نظر 

اپنی بینائی وہ گنواتے ہیں

آنکھ سورج سے جو ملاتے ہیں

عالم گیر عالم

روتے روتے روتے ہنسنا بھول گیا

ہنستے ہنستے ہنستے رونے والا میں

مہیش جوشی انل

میری اچھائیوں پہ نظر کر

میرے عیبوں کو کیا دیکھتا ہے

شفاعت جمال 

سارے جہاں سے اچھا ہے ہندوستاں میرا

بس یہ ترانا آج ہے سب کی زبان پر

اقبال رفیع

اکڑتے جھومتے بادل کو موڑ سکتا ہوں

میں بجلیوں کی کلائی مروڑ سکتا ہوں

ایاز احمد ایاز

سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض قیام الدین قیام نے انجام دیے۔پروگرام کے آخر میں ضلع کوآرڈینیٹر قیام الدین قیام نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago