خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام شراکت داروں کے اشتراکی اور جامع اپروچ کی ضرورت: پروفیسر نجمہ اختر
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ آرکی ٹیکچر نے ’جینڈر ایڈوانسمنٹ فار ٹرانزشننگ انسٹی ٹیوشنز(جی اے ٹی آئی) کے اشتراک سے’ محفوظ شہر برائے خواتین‘ کے عنوان پر یکم اگست دوہزارتیئس کو ایک ورکشاپ منعقد کیا۔ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس کی صدار ت (پدم شری)پروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی۔ورکشاپ کا مقصد نوجوان گریجویٹ،پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی اسکالرجو اپنے اپنے شعبوں میں اورکیرئیر شروع کرنے والوں کی صلاحیت سازی کے لیے اقدامات کرنا تھا۔
پروفیسر نجمہ اختر نے اپنی تقریر میں ریگنگ مخالف زیرو ٹولورینس پالیسی جیسے مختلف اقدامات کے ذریعے محفوظ کیمپس اور محفوظ جامعہ کی اہمیت پر زور دیا۔جامعہ ان پانچ یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جسے حکومت ہند نے ’گتی‘کی شکل میں جینڈر ایڈوانسمینٹ کو لانچ کرنے کے لیے منتخب کیاہے۔انھوں نے کہا کہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانا صرف قانون نافذ کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس میں جملہ شراکت دار،حکومت،قانون کے نفاذ سے متعلق ایجنسیاں،تعلیمی ادارے،سول سوسائٹی او ر سب سے اہم ایک ذمہ دار شہری کے بطور ہم میں سے ہر شخص اور ہر فرد سے ایک اشتراکی اور جامع اپروچ کا متقاضی ہے۔
فیکلٹی آف نیچرل سائنس،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ڈین پروفیسر سیمی فرحت بصیر جو ’گتی‘پروجیکٹ کی نوڈل آفیسر بھی ہیں انھوں نے اس پروجیکٹ کا تعارف پیش کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس سے طلبا میں صنف کی حساسیت کے تئیں بیداری میں اضافہ ہوگا۔
این آئی یو اے میں جی ٹوینٹی کے شہری حکمت عملی کی اکائی کے پروگرام ڈائریکٹرآرکی ٹیکٹ کنک تیواری اس موقع پر مہمان اعزازی تھیں۔انھوں نے ورک فورس میں خواتین کی بڑھتی شراکت پر زور دیا اور کہا کہ یہ ناگزیر ہے کہ ہم اپنے شہروں کا خاکہ اور اس کی منصوبہ بندی اس طورپر کریں کہ بچوں اور خواتین کے تحفظ کویقینی بنایا جاسکے جس کا حصول تبھی ممکن ہوگا جب ہم شہری منصوبہ بندی اور حکمت عملیوں کو تیار کرتے ہوئے نئے نئے طریقوں اور اقدامات پر غور وخوض کریں گے۔
جو یونیورسٹی کی اندرونی شکایات کمیٹی (آئی سی سی) کی چیئر پرسن بھی ہیں انھوں نے آئی سی سی کے کام کاج اور جامعہ کو طلبا اور اسٹاف کے لیے محفوظ مقام بنانے کے لیے سلسلے میں اس کے رول سے متعلق بات کی۔
افتتاحی خطبہ کے اختتام پر صدر شعبہ اور پروگرام کے کنوینر پروفیسر قمر ارشاد نے شکریے کی رسم ادا کی۔
ورکشاپ میں ماہرین اور علمی ہستیوں نے جو تقریریں کیں ان میں ڈیزائن اور جینڈر سے متعلق پہلوؤں اور مسائل کو مرکز میں رکھاگیا تھا۔اس کے بعد کوئز اور مذاکراتی سیشن بھی ہوا۔ پروگرام میں جن مقررین نے تقریریں کیں ان میں اے آر۔رجنی تنیجا، پروفیسر ارونا بھاردواج، ڈاکٹر عالیہ خان، پروفیسر قمر ارشاد،پروفیسر طیبہ منور اور اے آر۔شبینہ شاہین
سپریم کورٹ کے وکیل جناب عمیر اے۔ اندرابی نے سیشن کوخطاب کیا جس میں خواتین کے لیے ورک فورس اور قانونی پہلوؤں سے متعلق گفتگو کی۔سیشن کے بعد سوالات وجوابات بھی ہوئے جس سے نوجوان اسکالروں کا اعتماد بڑھا۔جملہ مقررین اور شرکا کے شکریے کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…