اردو کونسل کے زیر اہتمام ادبی گفتگو سلسلہ 9میں “مطالعات فکشن” پر مذاکرہ
اردو کونسل ہند کے زیر اہتمام بی بی ایس سی کے سینئررکن امتیاز احمد کریمی کی سرپرستی میں ان کی رہائش گاہ پر”ادبی گفتگو” سلسلہ۔9 کا بے حدکامیاب انعقاد عمل میں آیا۔اس مخصوص ادبی نشست میں اردو زبان و ادب کی نمائندہ اور اہم شخصیتوں نے شرکت کی۔
دانشوران شعروادب نیڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی کتاب” مطالعات فکشن” کا فکری اور فنی پہلو وں سے بھرپور جائزہ لیا اور اتفاق رائے سے یہ تسلیم کیا گیا کہ شہاب ظفر اعظمی نے دورحاضر میں فکشن کی تنقید میں ایک امتیاز اور اعتبار حاصل کیا ہے۔اس موقعے اردو کونسل کی جانب سے امتیاز احمد کریمی نے شہاب ظفر اعظمی کی شال پوشی کے ذریعہ قدردانی کی۔
پروگرام کے سرپرست کی حیثیت سے امتیاز کریمی نے کہا کہ اردو کی عظمت کو سلام کہ جس کے صدقے آج یہاں اردو کی اتنی ذی قدر شخصیتیں یہاں جمع ہیں اس محفل کی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیں کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس محفل میں ہم لوگوں کے علاوہ مصنف کو بھی بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور آئندہ اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہاب ظفر اعظمی پوری تحقیق اور اچھی تنقید سے کام لیتے ہیں۔وہ ہماری امیدوں کا مرکز ہیں۔ اردو کونسل کا یہ سلسلہ بہت مفید ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔
شفیع مشہدی نے کہا میں نے مطالعات فکشن نہیں پڑھی ہے لیکن اس محفل میں آ کر ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے یہ کتاب پڑھ لی ہے۔یہ اس محفل کی کامیابی کی دلیل ہے انہوں نے کہا کہ اردو کونسل کے “ادبی گفتگو” کے سلسلے کو اردو کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
پروفیسر علیم اللہ حالی نے کہا کہ مجموعی اعتبار سے یہ کتاب فکشن کے حوالے سے بہترین رہنمائی کرتی ہے۔ڈاکٹر قاسم خورشید نے کہا ڈاکٹر اعظمی کا تنقیدی موقف مثبت اور ہمدردانہ ہے۔ پروفیسر حامد علی خاں نے کہا کے مصنف اپنی باتیں دلائل اور تحقیق کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔فرد الحسن نے کہا شہاب کا تنقیدی موقف بہت واضح ہے۔سرور حسین نے کہا اس میں فکشن کے حوالے سے ا ہم موضوعات شامل ہیں۔
آصف سلیم نے کہاکہ لطف الرحمن اور وہاب اشرفی کے بعدظفر اعظمی نے تنقید کا میدان سنبھالا ہے۔نسیم اختر نے بتایا کہ اس کتاب کو ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی کتاب “فکشن سے پرے “کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو علمیت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ پروفیسر جاوید حیات نے کہا اس کتاب کے مطالعے سے فکشن کی تاریخ اور اس کی خصوصیات سے واقفیت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر محسن رضا رضوی نے کہا فکشن کی زبان اور اس کا اسلوب اس کتاب کا خاص مطالعہ ہے۔ مشتاق احمد نوری نے کہا شہاب ظفر اعظمی نے فکشن کی تنقید میں کرداروں کو صحیح سمت میں اجاگر کیا ہے۔ڈاکٹر سراج اللہ تیمی نے کہا کہ اس کتاب کے مطالعے سے منصف کے وسیع مطالعے گہرے تنقیدی اور تحقیقی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عشرت صبوحی کا کہنا تھا کہ یہ کتاب مصنف کے گہریتحقیقی اور تنقیدی شعور کا آئینہ ہے۔ ڈاکٹر اعظمی کے شاگرد ڈاکٹر منہاج الدین نے کہا کہ اس کتاب میں اسلوب اور عام فہم الفاظ پر مصنف کی نظر ہے۔ اس مخصوص ادبی تقریب میں حکومت بہار کے دو اردو نواز اعلی افسران معز الدین اور پرویز عالم بھی شریک محفل تھے۔
معزالدین نے کہا کہ یہ دانشوروں کی ایک معتبر محفل ہے۔اس سے نئی نسل کو بھی جوڑا جائے۔ اردو ادب کی تاریخ میں یہ پروگرام ایک میل کا پتھر ہے۔پرویز عالم نے کہا میری نظر میں اس سے اچھی ادبی محفل کہیں اور نہیں ہے اردو مجھے وراثت میں ملی ہے یہ میرے رگ و ریشے میں پیوست ہے اس لیے ایسی محفل میں آکر مجھے مسرت اور بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔
تقریباً تین گھنٹوں تک ادب کے ماہرین نے شہاب ظفر اعظمی کی کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی اور اسے فکشن کی تنقید میں ایک ا علی قدر اضافہ قرار دیا۔پروگرام کا آغاز اسلم جاوداں کے استقبا لیہ اورابتدائی کلمات سے ہوا۔انہوں نے بتایا کہ ادبی گفتگو کا مقصد اردو زبان اور ادب کے تحفظ اور فروغ کے ساتھ ادبی ماحول سازی و قلمکاروں کی قدر دانی بھی ہے۔
اردو کونسل کے ناظم ڈاکٹر انوار الھدی کے شکریہ پر اس پروگرام کا اختتام ہوا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…