جامعہ ملیہ اسلامیہ چونکہ تحریک ترک موالات اورخلافت تحریک کے زیر اثر وجودمیں آئی تھی اوراس کے اخراجات خلافت کمیٹی ہی اٹھارہی تھی۔خلافت عثمانیہ کا رسمی طورپر3 /مارچ1924 کو خاتمہ ہوگیا تھا اور اسی کے ساتھ ہی ہندوستان میں خلافت تحریک بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی جس کی وجہ سے جامعہ کو ملنے والی مالی امدادختم ہوچکی تھی۔لوگوں کی ہمت جواب دے رہی تھی اوران کا حوصلہ پژمردہ ہونے لگا تھا۔ان صبر آزماحالات میں جامعہ کا وجودبھی خطرے میں پڑگیا۔جامعہ کو چلانے والی ’مجلس امناء‘ نے جامعہ کو بندکرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔لیکن ان صبرآزماحالات میں جامعہ کو اپنی زندگی کا مقصد اورنصب العین قراردینے والے مخلصین کی ایک جماعت کھڑی ہوئی۔یہ دراصل جامعہ کے طلبا اوراساتذہ تھے جومجاہدین آزادی کے لگائے ہوئے اس شجر کو اس طرح ضائع ہوتانہیں دیکھ سکتے تھے۔یہ جامعہ کی بقاء اور اس کے استحکام کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیارتھے۔جامعہ کی ترقی میں کلیدی کرداراداکرنے والے ڈاکٹرذاکرحسین اس وقت جرمنی میں زیرتعلیم تھے۔
ایک طرف مخلصین کی اس جماعت نے ڈاکٹرذاکرحسین کو خط لکھ کر اس کی اطلاع دی تو دوسری طرف ان کے ایک وفد نے دہلی میں مسیح الملک حکیم اجمل خاں سے ملاقات کرکے التجاکی کہ ڈاکٹرذاکرحسین کے آنے تک جامعہ کو بند نہ کیا جائے۔مجلس امناء کی میٹنگ میں حکیم اجمل خاں نے جامعہ کی ذمے داری اپنے سرلے لی اور اسے دہلی منتقل کرنے کی تجویزپاس کرالی۔جامعہ کے پاس کہیں سے کسی بھی طرح کی مالی اعانت نہیں تھی۔اس کا ذکر جب حکیم اجمل خاں نے گاندھی جی سے کیا تو انھوں نے ایک تاریخ سازجملہ کہا تھا کہ جامعہ کو جاری رکھنے کے لیے اگر بھیک مانگنے کی ضرورت پڑی تو وہ بھیک بھی مانگیں گے۔17 /مارچ 1925 بروزہفتہ، کوٹھی حبیب باغ میں گیارہ بجے فاؤنڈیشن کمیٹی کی ایک اہم میٹنگ میں جامعہ کو دہلی منتقل کرنے کی تجویز پاس کی گئی۔اس موقع پر بہت سے لوگوں نے جامعہ سے کنارہ کشی بھی اختیارکرلی۔حکیم اجمل خاں نے اس کے اخراجات کی ذمے داری اپنے سر لی اوردہلی کے قرول باغ میں پہلے سے چل رہے طبیہ کالج کے کیمپس میں جامعہ کو بھی قائم کیا۔کہاجاتاہے کہ طبیہ کالج حکیم اجمل خاں کی جوانی کی اولاد تھی اورجامعہ بڑھاپے کی۔لیکن ان کے نزدیک دونوں ہی ادارے بہت ہی اہم تھے۔اس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اپنی علمی روشنی پھیلانے لگا۔
1926 جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔فروری1926 میں ڈاکٹرذاکرحسین، ڈاکٹرسید عابد حسین اورپروفیسرمحمد مجیب صاحبان اپنی تعلیم مکمل کرکے ہندوستان واپس آگئے۔اس سے قبل پیرس میں ان کی ملاقات حکیم اجمل خاں سے بھی ہوچکی تھی۔ان سب کا دہلی آمد پر والہانہ استقبال کیا گیا اوریہ تینوں ایک ساتھ جامعہ سے وابستہ ہوگئے۔ان حضرات کی جامعہ سے وابستگی جامعہ کی نشأۃ ثانیہ ثابت ہوئی اور جامعہ نے اپنی ترقی کی رفتارتیزی سے پکڑنی شروع کی۔اب جامعہ کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے ڈاکٹر سید عابدحسین کی ادارت میں ایک پندرہ روزہ جریدہ ’پیام تعلیم‘ اپریل 1926 سے شائع ہوناشروع ہوا۔17 /مارچ1927 کو فاؤنڈیشن کمیٹی کے اجلاس میں جامعہ کا سب سے پہلا دستوراساسی کامسودہ پاس ہوا۔آج اسے ہم Jamia Ordinance کے نام سے جانتے ہیں۔ 1927 میں جامعہ میں مجاہدین آزادی اور قومی سطح کے لیڈران کی آمد جاری رہی جن میں مہاتماگاندھی، سروجنی نائیڈو، مولاناابوالکلام آزاد، پنڈت جواہرلال نہرو وغیرہ خاص طورپرقابل ذکرہیں۔1928 میں جامعہ مالی بحران کا شکارہوگیا اور بہت بڑی تعدادمیں لوگ اس سے علاحدگی اختیارکرنے لگے۔25 /جولائی 1928 کو جامعہ کو ’مجلس تعلیم ملّی‘ کے سپر دکرنے کی تجویزمنظورہوئی۔اس میں وہ اساتذہ شامل ہوئے اور اقرارنامے پر دستخط کیے کہ وہ 20 برس تک جامعہ کی خدمت کریں گے اورمشاہرے کے طورپر150 روپئے سے زیادہ ماہانہ نہیں لیں گے۔اس میں بیشترجامعہ کے وہ اساتذہ تھے جنھیں جامعہ اپنے گھراور اہل خانہ سے بھی زیادہ عزیز تھی۔طلبا کی ہمہ جہتی نشوونماکے لیے اب بہت سے کھیلوں کی شروعات ہوئی اور اس کے لیے الگ سے نظام مرتب ہوا۔تدریس وآموزش کے میدان میں بھی جامعہ نے نئے تجربات کیے۔کئی عالمی ماہرین بھی جامعہ سے وابستہ ہوئے۔
1 /ماردچ 1935 کوجامعہ اپنے موجودہ کیمپس اوکھلامیں منتقل ہوگئی اور سب سے پہلے اسکول کی بنیادڈالی گئی۔1936 میں جامعہ پریس، مکتبہ جامعہ اورکتب خانہ کو چھوڑکر سارے شعبے اوکھلاکے موجودہ کیمپس منتقل کردیے گئے۔1938 میں جامعہ میں استادوں کا مدرسہ (Teacher Training Institute) قائم ہواجسے آج بھی TTI کے نام سے جاناجاتاہے۔1939 میں جامعہ کو سوسائٹی کے تحت رجسٹرکرادیاگیا۔تقسیم ہند اورآزادی کے بعد بھی جامعہ پوری طرح علم کی روشنی پھیلاتارہا۔جامعہ میں عالمی رہنماؤں نے خاصی دل چسپی لی اوریہاں کے نظام تعلیم سے متاثربھی ہوئے۔ان میں یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو،افغانستان کے بادشاہ ظاہرشاہ، سعودی شہزادہ اور بعد میں سعودی کے فرماروابنے شاہ فیصل، ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی اور شہزادہ مکرم شاہ کے علاوہ اہم عالمی شخصیات نے جامعہ کے دورے کیے۔
سال 1962 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے جامعہ کو Deemed to be Univeristy کا درجہ دیا۔اب بڑی تیزی سے جامعہ میں بہت سے شعبوں کا اضافہ ہوتاچلاگیا۔1981 میں فیکلٹی آف ہیومینیٹیز اینڈلینگویجیز، فیکلٹی آف نیچرل سائنس اور فیکلٹی آف سوشل سائنس کا باقاعدہ نظام عمل میں آیا۔بعد میں فیکلٹی آف ایجوکیشن کا بھی قیام عمل میں آیا۔1983 میں جامعہ کا مشہور ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر قائم ہوا۔1985 میں فیکلٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں آیا۔اکیڈمک اسٹاف کالج 1987اور اکیڈمی فارتھرڈ ورلڈاسٹڈیز1988 میں قائم ہوئے۔دسمبر1988 میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایک خصوصی ایکٹ کے تحت جامعہ کو ایک سینٹرل یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔اس کے علاوہ جامعہ میں تحقیق وریسرچ کو فروغ دینے کے لیے کئی مراکز بھی قائم ہوئے۔فی الحال جامعہ میں 10 فیکلٹیاں، 44 ڈپارٹمنٹ، 24 سینٹرزقائم ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹرذاکر حسین سینٹرل لائبریری، منشی پریم چندآرکائیوز، اسٹیٹ ریسورس سینٹر، کوشل کیندر، یونیورسٹی پالیٹیکنگ کے علاوہ نواب پٹودی اسپورٹس کامپلیکس اہمیت کا حامل ہے جہاں قومی سطح کے کھلاڑیوں کی کھیپ تیارکی جاتی ہے۔
طلبا میں ملک کی خدمت کا جذبہ پیداکرنے کے لیے NSS اور NCC جیسے قومی اہمیت کے ادارے بھی جامعہ میں فعال ہیں اور نوجوانوں میں ملک وملت کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔جامعہ میں نرسری سے لے پی ایچ ڈی اورڈی لِٹ تک کی تعلیم کا نظم ہے۔نرسری کی تعلیم کے لیے مشیر فاطمہ نرسری اسکول اور بالک ماتامیں چلنے والے نرسری اسکول، اورپرائمری تعلیم کے لیے جامعہ مڈل اسکول، بالک ماتاسینٹرمیں چلنے والاپرائمری اسکول اور سید عابد حسین (self-finance)اسکول، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی کی تعلیم کے لیے جامعہ سینئیر سیکنڈری اسکول، سید عابد حسین سینیرسیکینڈری اسکول، گرلزسینیر سیکینڈری اسکول، ڈاکٹر ذاکر حسین سینیر سیکینڈ ری اسکول قابل ذکر ہیں۔رسمی تعلیم کے علاوہ جامعہ میں دہلی کی لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان پرائیویٹ سے دینے کی سہولت موجودہے۔جو طلبا رسمی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے ان کے لیے جامعہ میں پرائیوٹ سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کا التزام رکھا گیا جس میں مدارس، اردومیڈیم طلبا، جامعہ کے ملازمین اور خواتین بڑی تعدادمیں ہر سال امتحان میں شریک ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ جامعہ اینگلوعربک سینئیر سیکینڈری اسکول، شفیق میموریل اسکول کا بھی نظم ونسق بھی اپنے ذمے لیے ہوئے ہے۔
جامعہ کو ترقی دینے میں شیوخ الجامعہ کے ساتھ ساتھ جامعہ کے اساتذہ اور طلبا نیز غیر تدریسی عملہ اور ابنائے قدیم کی گران قدر خدمات ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔جامعہ کو دولہن کی طرح سجانے اورسنوارنے والے جامعہ کے جدیدمعماراورحقیقی معنوں میں جامعہ کے شاہ جہاں مرحوم پروفسیر مشیر الحسن کاجامعہ کونئے بال وپر عطاکرنے میں اہم رول ہے جس کے لیے جامعہ ان کی مرہون منت ہے۔آج جامعہ کو جو ہیولیٰ ہمیں نظرآتاہے جس میں جامعہ پوری آب وتاب کے ساتھ اپنے جلوے بکھیر رہی ہے، اس میں مرحوم پروفسیر مشیر الحسن صاحب کا بہت ہی عظیم کارنامہ ہے۔جامعہ کی فلک شگاف پرشکوہ عمارتیں پروفیسر مشیر الحسن مرحوم کی دین ہیں۔آج یوم تاسیس کے موقعے پر ہم سبھی بانیان جامعہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن تعلیم کا یہ سفر جاری رہے گا کیوں کہ؛
سفرہے دین یہاں کفرہے قیام یہاں
یہاں پہ راہ روی خودحصول منزل ہے
شناوری کا تقاضا ہے نوبہ نو طوفاں
کنارِموج میں آسودگی ساحل ہے
ڈاکٹرمحمد اسجد انصاری
اسسٹنٹ پروفیسر
اسسٹنٹ پراکٹر
کورس کوآرڈینیٹرڈی ایل ایڈ
ڈپارٹمنٹ آف ٹیچرٹریننگ اینڈ نان فارمل ایجوکیشن
فیکلٹی آف ایجوکیشن
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
Mob. 9625155640
Email: mansari12@jmi.ac.in
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…