بنگالی فلم ’اے ہاؤس ود نو نیم‘ کی مرکزی اداکارہ نصرت فاریہ نے کہا. ’’فلم بناتے وقت ناظرین کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پہلے ناظرین خواتین کے غلبہ والی بڑی فلموں کے لیے پیسے ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے. لیکن وبائی مرض کے بعد جب لوگ او ٹی ٹی پر ایسے کنٹینٹ کے رابطہ میں آئے. تو انہوں نے اس خیال کو پہلے کے مقابلے زیادہ کھل کر تسلیم کیا۔ آج، کہانی ہی فلم کی مرکزی ہیرو ہے۔‘‘ نصرت فاریہ اس فلم کی اداکارہ افسانہ میمی اور پروڈیوسر ابو شاہد ایمون کے ساتھ گوا میں فلم فیسٹیول کے دوران پی آئی بی کے ذریعے منعقد آئی ایف ایف آئی ’ٹیبل ٹاکس. میں میڈیا اور فیسٹیول میں شامل نمائندوں کے ساتھ بات چیت کر رہی تھیں۔
بنگلہ دیش کی فلم ’اے ہاؤس ود نو نیم‘ کو آج آئی ایف ایف آئی 53 کے سنیما آف دی ورلڈ سیکشن کے تحت دکھایا گیا۔
نصرت فاریہ نے اس فلم کو اداکاری کے لیے کیوں منتخب کیا. – اس سوال پر نصرت فاریہ نے کہا. ’’میں گزشتہ 7 سالوں سے گیت اور رقص اور رومانس والی کاروباری فلمیں کر رہی ہوں. اور میری مصروفیت نے مجھے اپنی فیملی سے دور رکھا۔ وبائی مرض کے دوران، کئی سالوں کے بعد، میں نے اپنی فیملی کے ساتھ لگاتار 60 دن گزارے. اور جب ابو (شاہد ایمون، پروڈیوسر) نے مجھے فلم کی پیشکش کی. تو اس نے مجھے ماں کے ساتھ اپنے رشتے کی یاد دلا دی. اور میں نے فوراً ہاں کہہ دیا۔‘‘ فلم کو دو کووڈ کی لہر کے درمیان شوٹ کیا گیا تھا۔
فلم میں فاریہ کی ماں کا رول نبھانے والی بنگلہ دیش کی مشہور اداکارہ افسانہ میمی نے کہا کہ انہیں یہ رول بہت چیلنج بھرا لگا۔ 18 سال بعد پردے پر واپسی کرنے اور اس فلم کا حصہ بننے پر انہوں نے کہا. ’’اس فلم میں میرے کردار کی جدوجہد بہت مشکل ہے۔ ایک طرف وہ اسقاط حمل کرواتی ہے اور دوسری طرف اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزارنےکے لیے ترستی ہے۔‘‘ فاریہ نے یہ بھی کہا کہ وہ بنگلہ دیشی سنیما کی ایسی مشہور شخصیت کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں چھوڑ سکتی تھیں۔
اس فلم میں فاریہ نے ایک اداکارہ کا رول نبھایا ہے، جو اپنے آبائی گھر لوٹتی ہے. اور پھر وہ اپنی فیملی کے ماضی سے جڑے راز کا پتہ لگاتی ہے۔ کسی فلم میں ایک اداکارہ کا رول نبھانے اور حقیقی زندگی میں ایک اداکارہ ہونے کے فرق کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا. ’’جب میں نے کام کرنا شروع کیا تھا. تو میری فیملی نے اس میں کوئی خاص ساتھ نہیں دیا تھا . اس لیے مجھے یہاں تک پہنچنے کے لیے اپنی لڑائی خود لڑنی پڑی. میرے کردار میں بھی اس کا اپنا ایک سفر ہے کیوں کہ وہ ایک مردوں کے غلبہ والی صنعت میں ابھرنے کی کوشش کرتی ہے. جہاں صرف ایک ہی چیز ہے جو اسے بنائے رکھتی ہے. اور وہ ہے اس کاجنون۔ ان دونوں کے تجربات بھلے ہی الگ الگ رہے ہوں.
فلم کے پروڈیوسر ابو شاہد ایمون نے اس فلم کو ’پیچیدہ اور ماں بیٹی کی خوبصورت کہانی‘ بتایا۔ یہ بات چیت اس صنعت میں آئی تبدیلیوں پر بھی مرکوز تھی، جن کے بارے میں افسانہ میمی نے کہا. ’’اب نوجوان صلاحیتوں اور نئے نئے خیالات کے لیے کہیں زیادہ گنجائش ہے. ایک طرح سے جب میں نے کام کرنا شروع کیا تھا. میں نے اس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔‘ بنگلہ دیشی فلم صنعت میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں پوچھے جانے پر میمی نے کہا . کہ ویسے تو بنگلہ دیشی فلموں میں خواتین کے رول ہمیشہ سے ہی رہے ہیں، لیکن خواتین ہدایت کاروں کی تعداد کافی نہیں ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…