Categories: قومی

اندرون سمندر سرگرمیاں انجام دینے کے لیے زیر آب گاڑیاں موجود

<p style="text-align: right;">
 <span style="color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; text-align: justify; box-sizing: border-box; font-size: 15pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span style="box-sizing: border-box; color: black;">نئی دہلی،29  اکتوبر، 2021/ </span></span></span><span style="color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; text-align: justify; box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">سائنس اور ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت آزادانہ چارج، ارضیاتی سائنسز، وزیراعظم کے دفتر، عملے عوامی شکایات، پنشن و ایٹمی توانائی اور خلا کے وزیرمملکت (آزادانہ چارج) ڈاکٹر جتیندر سنگھ نےآج بھارت کے پہلے ، انسان والے سمندری مشن سمدر یان کا چنئی میں آغاز کیا۔  انہوں نے کہا کہ اس منفرد سمندری مشن کے آغاز کے ساتھ بھارت امریکہ، روس، جاپان، فرانس اور چین جیسے ملکوں کے اعلیٰ درجے کے اس کلب میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس اندرون سمندر سرگرمیاں انجام دینے کے لیے زیر آب گاڑیاں موجود ہیں۔</span></span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ اس اعلیٰ ٹکنالوجی سے ارضیاتی علوم کی وزارت کو کثیر معدنیاتی میگنیز  کی گانٹھوں ، گیس ہائیڈریٹس ، ہائیڈرو – تھرمل سلفائڈس اور کوبالٹ کرسٹس، جیسے غیر حیاتیاتی وسائل کی ، گہرے سمندر میں تلاش میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ یہ وسائل 1000 سے 5500 میٹر  کے درمیان گہرائی میں واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیر سمندر  انسان والے متسیہ 6000  کا ابتدائی ڈیزائن مکمل کر لیا گیا ہے اور اس سے متعلق گاڑی بھی مختلف تنظیموں نے بنانی شروع کی دی ہے۔ ان تنظیموں میں اسرو، آئی آئی ٹی ایم اور ڈی آر ڈی او بھی شامل ہیں جنہیں تیاری میں مدد کےلیے مدعو کیا گیا ہے۔</span></span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 15pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">وزیر موصوف نے بتایا کہ  500 میٹر کے اس سمندری تجربات سے انسان والے زیر آب ورژن کے بارے میں امید ہے کہ اس کی  شروعات 2022 کی آخری سہ ماہی میں ہوگی اور متسیہ 6000 جو گہرے پانی میں انسان والا مشن ہے تجربات کےلیے 2024 کی دوسری سہ ماہی میں تیار ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ دھات کو صاف کرنے کے کام  ، توانائی کو ذخیرہ کرنے ، اندرون سمندر سمت تلاش کرنے اور مصنوعات سازی کی سہولیات میں جدید ٹکنالوجی سے مزید مستعید قابل انحصار اور انسان والا محفوط زیر آب مشن تیار کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 15pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ یہ زیر آب گاڑیاں ہائی ریزولیشن ، بیٹیمیٹری ، حیاتیاتی تنوع کے جائزے ،  ارضیاتی و سائنسی مشاہدے ، تلاش سے متعلق سرگرمیوں سالویج آپریشن اور انجینئرنگ سپورٹ جیسی اندرون سمندر سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ بغیر انسان والی زیر آب گاڑیوں کی  مشقوں کی صلاحیت میں بہتری آئی ہے اور عمدہ وژن نظام میں راست مشاہدے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے لہذا انسان والی زیر آب گاڑیوں سے محققین کے لیے براہ راست جسمانی موجودگی کا احساس فراہم ہوتا ہے اور یہ مداخلت کی بہتر صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں۔ وزیر موصوف نے یہ بھی کہا کہ  مزید جدت اختیار کرتی ہوئی اندرون سمندر ٹکنالوجیز جو حالیہ فینڈوزے ، انسان والی زیر آب گاڑی ہے جسے 2020 میں چین نے تیار کیا تھا۔ یہ گاڑی سمندر میں 11000 میٹر کی گہرائی تک پہنچ گئی۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">
<img alt="https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/DJS-2(1)PXIU.jpg" src="https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/DJS-2(1)PXIU.jpg" style="box-sizing: border-box; border: 0px; vertical-align: middle; height: 380px; width: 624px;" /></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">افسران نے وضاحت کی کہ بغیر انسان والی روبوٹیک گاڑیوں اور 6000 میٹر کی کارکردگی کی صلاحیت والے نظام میں دو دہائیوں سے جو تجربات حاصل ہوئے ہیں ان کی بنیاد پر ارضیاتی علوم کی وزارت – این آئی او ٹی انسان والی ایک زیر آب گاڑی ملک ہی میں تیار کر رہی ہے، جس کی صلاحیت  6000 میٹر گہرے سمندر میں جانے کی ہوگی۔ یہ گاڑی گہرے سمندری مشن کے تحت تیار کی جا رہی ہے۔ انسان والی زیر آب گاڑی تین افراد کو لے جانے کے لیے ڈیزائن کی جا رہی ہے۔ یہ گاڑی 2.1 میٹر کے نصف قطر میں ٹائٹینیئم ایلائے عملے کے کرہ میں تیار کی جا رہی ہے جس میں 12 گھنٹے تک کام کرنے کی صلاحیت ہوگی اور ہنگامی صورتحال میں 96 گھنٹے تک کام کرنے کے نظام سے لیس ہوگی۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: right;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">انسان والی اس زیرے آب گاڑی کے کچھ اہم ذیلی نظام ، ٹی آئی ایلائے پرسنل اسفیئر سے تیار کیے گئے ہیں، جس میں بند حصے میں انسان کے لیے مددگار اور محفوظ نظام ، کم کمیت والے لہروں کے  ماڈیولز ، بیلاسٹ اور ٹریم سسٹم نصب کیے گئے ہیں۔ پریسر کی جگہ کام کرنے والی بیٹریز اور آگے دھکیلنے والے نظام ، کنٹرول اور مواصلاتی نظام اور لانچنگ اور ریکوری نظام بھی اس میں نصب کیے گئے ہیں۔</span></span></p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago