Urdu News

بہار بورڈ کا دوسری سرکاری زبان اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک

بہار اسکول اگزامینیشن بورڈ

ڈاکٹر محمد حسین

بھلوا چوک جے نگر ،ضلع مدھوبنی بہار

بہار ہندوستان کی ان چند خوش نصیب ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں اردو دوسری سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے ۔لیکن اس خوش نصیبی کو بد نصیبی میں وقتاً فوقتاً تبدیل کیا جاتا رہتا ہے کبھی دانستہ کبھی غیر دانستہ ۔بہار اسکول اگزامینیشن بورڈ نے میٹرک اور انٹر کے طلبا کے بورڈ امتحان کی تیار ی کے لیے ماڈل پیپر اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیاہے۔

تمام مضامین کے سوال نامے تو کمپوزڈ ہیں جن سے طلبہ کو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن اردو ،عربی و فارسی کے سوال نامے کی  ہاتھ کی بھونڈی سی لکھائی والی کاپی اپلوڈ کی گئی ہے جس کو دیکھ کے طبیعت مکدر ہو جائے اور اس کو پرنٹ کر کے پڑھنا بھی دشوار ہو  ۔بہار اسکول اگزامنیشن بورڈ ایک فعال اور بے حد متحرک ادارہ بن چکا ہے ۔

تمام مضامین کے سوال نامے تو کمپوزڈ ہیں جن سے طلبہ کو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن اردو ،عربی و فارسی کے سوال نامے کی  ہاتھ کی بھونڈی سی لکھائی والی کاپی اپلوڈ کی گئی ہے

کرونا وبا کے دوران بھی اس بورڈ نے ہندوستان کی تمام ریاستوں سے سبقت لے جاتے ہوئے سب سے پہلے امتحان اور معاً بعد نتائج کا اعلان کرکے خوب واہ واہی بٹوری ۔امتحانات بر وقت منعقد کرانا اور بروقت نتائج کا اعلان مسلسل پابندی سے کرنا ایک قابل ستائش عمل ہے ۔لیکن اردو اور اردو کے طلبہ وطالبات کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنا کہیں سے بھی قابل قبول نہیں ہے  ۔فروری ۲۰۲۳میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات ہونے والے ہیں ۔امسال  میٹرک  بورڈ کے امتحان میں ۱۷ لاکھ سے زائد اور انٹر میڈیٹ بورڈ امتحانات  میں ۱۳ لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات  شرکت کریں گے ۔اسکولوں میں پری بورڈ /سینٹ اپ امتحانات  وغیرہ نومبر میں ہی ہوچکے ہیں ۔اب میٹرک و انٹر کے طلبہ و طالبات پوری تندہی سے تیاریوں میں مصروف ہیں ۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی بورڈ نے اپنی ویب سائٹ پر ماڈل سوال نامہ اپلوڈ کیا ہے جس سے طلبہ و طالبات امتحان میں آنے والے پرچے کا اندازہ لگا سکیں کہ کس نوعیت کے سوالات ہوتے ہیں ،کتنے نمبرات کے معروضی سوالات ہوتے ہیں اور کتنے نمبروں کے تفصیلی یا مختصر جواب والے سوالات ہوتے ہیں ۔تمام مضامین کے ماڈل پیپر کمپیوٹر سے ٹائپ شدہ یا کمپوز شدہ ہیں  صرف اردو ،فارسی و عربی کے ماڈل سوالنامے ہاتھ کی لکھائی کی زیراکس کاپی اپلوڈ کی گئی ہیں جس میں جگہ جگہ قلم زد الفاظ بھی ہیں۔ان زبانوں سے وابستہ طلبہ یہ دیکھ کر ظاہر ہے خوش نہیں ہو ں گے۔

ان کے دل  میں بھی سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا ہم  ایک ایسی زبان کے طالب علم ہیں جو اس قدر پچھڑی ہے کہ اس کے ماڈل پیپر تک کمپوز شدہ نہیں ہیں جب کہ دیگر زبانوں کے سوال نامے کمپوز شدہ ہیں  ۔دیگر مضامین کے ماڈل پیپر  جن میں ہندی ،انگریزی ،ریاضی ،سماجی علوم ، سائنس اورمیتھلی وغیرہ کے تمام ماڈل سوالنامے باضابطہ کمپوز کیے ہوئے ہیں لیکن اردو ،فارسی اور عربی کے ساتھ سوتیلا سلوک برتتے ہوئے بورڈ نے ہاتھ کی لکھائی والی بھونڈی سی تحریر والا سوالنامہ اپلوڈ کر دیا جس کاپرنٹ آؤٹ لے کر  پڑھنا بھی مشکل ہے کیوں کہ ہاتھ کی لکھائی میں متعدد حروف کم سیاہی کی وجہ سے مٹے ہوئے نظر آرہے ہیں  ۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

کیا یہ بورڈ کا غیر ذمے دارانہ عمل نہیں ہے ۔؟کیا بورڈ کے پاس فنڈ کی اتنی قلت ہے کہ وہ کسی اردو کمپوزر کو ملازم نہ رکھ سکے یا  کسی پرو فیشنل اردو کمپوزر کو معاوضہ دے کر یہ سوال نامہ ٹائپ کروا سکے ؟ یا بورڈ کے ذمے داران کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ؟کیوں کہ ویسے بھی یہ اردو ،فارسی اور عربی زبانیں پڑھتا کون ہے ؟ظاہرہے  اقلیتی طبقے کے لوگ ہی تو ان زبانوں کا انتخاب کر تے ہیں ،ان کی سنتا ہی کون ہے ؟ ان کے اعتراضات سے کیا ڈرنا ؟۔اول تو شور نہیں کریں گے  اور کریں گے بھی  تو تھک ہار کر خود ہی چپ ہو جائیں گے ۔بورڈ والوں کا یہ رویہ اور طرز عمل  بہت افسوسناک اور شرمناک  ہے ۔بورڈ کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے ترجیحی طور پربلا تاخیر  ان زبانوں کے سوال نامے بھی کمپو ز شدہ اپلوڈ کرنا چاہیے اور آئندہ بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔

Recommended