Urdu News

دختران اسلام پر اغیار کا خونی پنجہ

ہندوستان میں مسلم خواتین

محمدوہاج الدین اختر

ہندوتوا کا بے لگام گھوڑااپنی تمام ترخست ودنایٗت ، کمینگی ورذالت اور بے شرمانہ ڈھٹائی کے ساتھ اپنی آنکھوں سے حیا وحجاب کے تمام پردے نوچ کرانتہائی فحش اندازمیں عریاں اور برہنہ ہوکر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف اپنی کم ظرفی ،اورشیطانی جبلت وخباثت کا سرعام “پریچے “دینے پرتلاہواہے ،اوراپنی اس بیہودہ اورجنونی مہم میں وہ اس درجہ بے غیرت اور مجرم ضمیرواقع ہورہاہے کہ اس سے اس بات کاشعورواحساس بھی سلب ہوچکاہے کہ عالمگیریت کے اس دورمیں جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں میں بدل چکی ہے ، اورخطۂ ارض کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والے واقعات وسانحات سے چشم زدن میں نہ صرف یہ کہ پورا عالم واقف ہوجاتاہے بلکہ اثرات قبول کرکے تاثرات بھی قائم کرتاہے ،اندھے اورگندے تعصبات کے زیراثر ان بھگوائیوں کی یہ اخلاق سوز حرکتیں ،اورغیرانسانی مہم جوئئ پہلے سے ہی تارعنکبوت کی طرح کمزور ترین دیومالائی بنیادوں پرقائم ہندوازم کے بارے میں کس طرح کی عوامی راے اورعالمی تصورات کاسبب بنے گی ۔

زعفرانی سرکاروں کی خاموش سرپرستی وپشت پناہی میں ان کی شہ پر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے نت نئے حربوں ،تدبیروں اور تجربوں کے بعداب مسلمانوں کومزیددرمزیدذہنی ،جسمانی ،مذہبی اور اخلاقی طورپرتاعمرداغ رسوائی کے ساتھ جینےاورکوفت واذیت میں مبتلارکھنے کے لیے کرایے کے ان بھگوغنڈوں نےہماری بہن بیٹیوں کوتاک لیاہے ، اوراس مقصدکو اپنی ترجیحات کامحوربناتے ہوے آر،ایس،ایس اوراس کی دہشت گردذیلی تنظیموں نے اپنےجلادصفت ،بے روزگار “سنسکاری “غنڈوں کو باضابطہ اوربالمعاوضہ طورپراس ‘کارخیر’کےلیےمامورکردیاہے ،جوہرطرح کے احتیاطی تقاضوں،اوردوردرازکے قانونی اندیشوں کوپاے حقارت سے ٹھکراتے ہوےکھلے عام میڈیاکے روبرو اپنے زہریلے ایجنڈوں ،اورقابل نفرت وقابل صدگرفت قاتلانہ عزائم کااعلان کرتے ہوے پوری ذمہ داری اورسرگرمی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں ،اورانہوں نے اپنے مذموم اہداف کی تکمیل کے لیے پہلانشانہ کالج اور یونیورسٹی جانے والی طالبات کوبنایاہے ۔

جہاں ابتدائی طورپراسباق اورلکچرز کے نوٹس وغیرہ کے تبادلے کے ساتھ لڑکیوں کو مانوس کیاجاتاہے ،اوران سے آشنائی کی جاتی ہے ،اوردیگرامورمیں بھی ان کی طرف دست تعاون بڑھاکران سے دوستی کرنے اور قریب ترلانے کی کوشش کی جاتی ہے ،کچھ مسلم تہواروں عیدوغیرہ میں تحفے تحائف کالین دین کرکے مسلم تہذیب اوراسلامی تعلیمات سے خودکو متاثر ہونے کاجھانسہ دے کرٹیوشن کے بہانے مختلف کوچنگ سینٹرز میں ملاقات پرآمادہ کیاجاتاہے،جس سے متاثر ہوکر لڑکیاں مختلف حیلے حوالوں سے والدین کو ٹیوشن بھیجنے پر راضی کرلیتی ہیں،اس کے علاوہ بھی کچھ خاص مواقع اور خصوصی تقاریب میں اپنے یہاں لڑکیوں کومدعوکرکے اچھی خاطر داری اور بہترین مدارات کی جاتی ہے،واپسی کے وقت کچھ پرکشش گفٹ بھی عنایت کیے جاتے ہیں ،جس سے واپس آکر لڑکی ہندو گھرانے کی مہمان نوازی کی تعریف میں رطب اللسان ہوجاتی ہے ۔

گاہے گاہے ان لڑکیوں کے والدین کے لیے بھی کچھ ہدیے تحفے بھیج دیے جاتے ہیں ،جس سے وہ بھی متاثر ہونے بغیر نہیں رہتے ،اوراس طرح بے تکلف آمدورفت کے معاملے میں والدین کا رویہ بھی نرم پڑ جاتاہے ، یہ سارے کام منظم اندازمیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پارہے ہیں ،جس کے مہلک اوررسواکن اثرات بھی اب صاف طورپرمشاہدے میں آنے لگے ہیں،کہ ان مکاراورزعفرانی گروہ کے جھانسے کاشکارہوکر اپنے انجام سے بےخبرآے دن ہماری کوئی نہ کوئی نجمہ،ریشما،افسانہ،شبانہ،ان درندوں کے نرغے میں جاکر اپنے پاکیزہ مذہب ،اورنیک نام خاندان سے اعلان بغاوت کرکے کسی تلک دھاری لفنگے کے ساتھ مندرمیں  پھیرے لگاکر اپنی نازک ہتھیلیوں کوبھگوالڑکوں کے ناپاک اورخون آشام پنجوں میں تھماکراپنی نسوانی حیاکو بالاے طاق رکھتے ہوے کیمرے کے سامنے بظاہرکسی ایک دھیرج کمار،اورنیرج شریواستو سے میرج کااعلان کرتی ہے ،مگراپنے حشراورآنجام کے لحاظ سے اس کام پرمقرربدکاراورزانی بھگواٹولے کی اجتماعی داشتہ بن جاتی ہے ۔

جس کے بعد موت سے بدتراذیتوں اوراہانتوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے،نہ جاے ماندن نہ پاے رفتن  کے مصداق نہ وہ اپنے والدین کے پاس جانے کے قابل ہوتی ہے،اورنہ ہی اپنا پسندفرمودہ “اجنبی سسرال”جاے اماں بنتاہے،زندگی اس قدرجہنم زار ہوجاتی ہے کہ زندگی پرموٹ کوترجیح دیتے ہوے یاتووہ خودہی خودکشی کرلیتی ہے، یاجسم فروشی کی دوکانوں میں فروخت کردی جاتی ہے،یاانتہائی ذلت آمیزاوربہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہے ، اس لیے کہ ہندوتوا کے کارپردازوں کامقصدپیار اوردھرم پریورتن نہیں بلکہ لڑکیوں کی انتہا درجے کی تذلیل واہانت کے بعدان کی زندگیوں سے کھیل کر مسلمان والدین کو تاحیات بدنامیوں اورصدمات کی نفسیات کے زیراثرچھوڑکر’مردہ بنام زندہ’جیتے جی مارنے کی منصوبہ بندی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ان سارے جرائم کی داستان الم،اوررودادغم کو پوشیدہ نہیں رکھاجاتا،بلکہ ویڈیوز کے ذریعے سارے مناظر عام کرکے اپنی “حسن کارکردگی “کادستاویزی مظاہرہ کرتے ہوے کلنک انسانیت زعفرانی خیمے سے داد شجاعت حاصل کی جاتی ہے ،اورمسلمانوں کوان کی حیثیت بتائی جاتی ہے ،سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعدادمیں مسلم لڑکیاں اغیارکاشکارکیسے ہورہی ہیں،اورحالات اتنے دھماکہ خیزکیوں ہو گئے ہیں ،اورصورت حال اتنی نازک اور تشویشناک کیونکرہوگئی ،کہ بعض موقرعلماے دین کوچشم نگراں کے بغیربچیوں کوتنہااسکول اورکالج بھیجنے کو ‘حرام ‘قراردیناپڑرہاہے ،میرے ناقص خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے اندرفروغ پاتے ہوے دین بیزارماحول ،اورنام نہادروشن خیالی کے سبب کفروشرک کی نحوستوں ،اورشرکیہ اعمال وافعال کاماوی وملجا ہندوتہذیب وثقافت کے تئیں اپنی اولاد کے ذہنوں میں نفرت وقباحت کاشعوربیدارنہیں کیاگیا ۔

بلکہ ماڈرن بننے اوردوسروں کو ماڈرن باورکرانے کے نشے میں اس جیسی باتوں کو دقیانوسی خیالات ، مولویانہ لاف وگزاف،اوردیوانوں کی بڑ سمجھتے ہوے بڑی جارحیت سے مذاق اڑاتے ہوے ،مستردکردیا ،علاوہ ازیں مذہب اسلام کی خوبیاں ،اسلامی تعلیمات کاحسن ،اوراس کی خوبصورتی وپاکیزگی سے اپنے بچے بچیوں کو متعارف نہیں کرایا ،ایمان واسلام کی دولت کے قیمتی اور انمول ہونے کوبھی راسخ نہیں کیا ،بلکہ ماڈرن ازم کی راہ میں پاکیزگی وطہارت پرمبنی اسلامی احکام وہدایات کو ٹھکراتے ہوئے ۔

غیرمحرم سے میل جول کی زہرناکیوں اورحشرسامانیوں سے بھی آگاہ نہیں کیاگیا،بلفظ دیگراسلام کے حفاظتی حصار وں کے بغیراندھے  اعتماد کے ساتھ لڑکیوں کو شتربے مہاراوراسپ بے لگام بناکراپنی جدت پسندی ،اورروشن خیالی کواستحکام ودوام عطاکرنے میں لگے رہے ،جس کے نتائج منطقی طورپرکچھ ایسے ہی ناخوشگوار اندازمیں سامنے آنے تھے ، اس لیے تجربات کی روشنی میں اب نہایت ضروری ہے نقصان رساں ماڈرن ازم اور روشن خیالی کے سراب سے باہرنکل کر اسلام کی پاکیزہ خیالی ،اورروشن تعلیمات وہدایات کو حرزجاں بنانے کی مخلصانہ سعی کی جائے۔

بالغ ہونے کی بعد نکاح میں تاخیر نہ کی جائے، اوراپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت خود یقینی بنائیں، موبائیل اوران کی دیگر سرگرمیوں پرگہری عقابی نظر رکھیں ،اوراس معاملے میں علماءکرام ، دینی وملی جماعتوں وتنظیموں سے توقعات وابستہ کرناکارعبث ہوگا ،انفرادی طورپرتوہرشخص اورہرخاندان کواپنی ذمہ داری خودہی اداکرنے ہوگی ، علماء وائمہ دینی وملی تنظیموں کی طرف سے اجتماعی سطح پر عوامی بیداری اور ذہن سازی کی کوششیں ہوسکتی ہیں ،جوظاہرہے دینی و اسلامی بنیادوں پرہی ہوگی،جسے روشن خیالی اور ماڈرن ازم کے خمارنے پہلے ہی فرسودہ ،اورناقابل اعتناجان کرردکردیاتھا ،مگراب امیدہے کہ تسلسل کے ساتھ پیش آمدہ واقعات ،اورروح فرساسانحات کے بعدہماری عقل کی گرہیں کھل گئی ہوں گی۔

(یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Recommended