پروفیسر صغیر افراہیم
سابق صدر شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ،یوپی (انڈیا)
جمیل اصغرؔ نے جس خانوادے میں آنکھ کھولی اور جس ماحول میں پروان چڑھے وہاں انسانیت، محبت، مروت، سخاوت اور انکساری کے چرچے تھے۔ قرآن وحدیث کے درس کے ساتھ ساتھ صوفیاء کے نظریات کو قلم بند کرنے کا رواج تھا۔ جمیل اصغربھی اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شعور ولاشعور کی کشاکش اور فطری خیالات وجذبات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے گئے۔ ادبی، ثقافتی، سماجی اور منطقی مسائل کو اصنافِ شعر خصوصاً غزل کے پیراہن میں اُتارتے ہوئے کبھی کبھی خود اُنھیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُن کے قلم سے سیاہی کی جگہ لہو ٹپکتا ہے۔
قلم سے شعر نہیں اب لہو ٹپکتا ہے
بلاؤ میر کو ، انجام دیکھنے کے لیے
اور ایسا اس لیے کہ انھوں نے اپنے رب سے التجا کی تھی
تری ثنا جو کرے وہ زبان دے اللہ
اور اس زبان کو حسنِ بیان دے اللہ
مرے قلم پہ بھی ایسا سخن اتار کبھی
کہ حرف حرف سخن کا اذان دے اللہ
مجموعۂ کلام ’’لہو ٹپکتا ہے‘‘ کا بغور مطالعہ کیجیے تو احساس ہوگا کہ جمیل اصغر کو عروض وبلاغت کا علم ہے۔ انتخاب الفاظ کا قرینہ اور مصرعے موزوں کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ حمدیہ، نعتیہ یا سید الشہداء کی شان میں لکھے گئے اشعار کو دیکھیں تو متصوفانہ مزاج اور خاکسارانہ انداز پوری طرح جلوہ گر ہے۔
کتنے احسان ہیں ترے یا رب
زندگی کو شکایتیں کیسی؟
معترف ہیں تری عنایت کے
تونے ہر دور کو ضیا بخشی
سیرت جونبی کی ، مرے کردار میں آجائے
ظلمت کا سفر ، حلقۂ انوار میں آجائے
مرقدِ پاک سدا نور سے تابندہ رہے
قومِ مسلم ِمیں وہی جوش وعمل زندہ رہے
جمیلؔ اصغر کے اکثر اشعار تصوف، معرفت اور واقعاتِ کربلا کے تعلق سے صبرواستقامت کے اشاریے ہیں۔ اِس تناظر میں دیکھیں تو امیر شہر، حاکم، ظالم، مصائب، حق، انصاف وغیرہ وہ پسندیدہ استعارے ہیں جن کے توسط سے شاعر نے حقانیت اور انسانیت کو مہمیز کیا ہے۔
سپاہِ شام سے تنہا لڑی ہے لو چراغوں کی
ہوا کے سامنے جو گنبدوں کے سرپہ روشن تھے
مجھے اک بار پھر اس سرزمیں پر قتل کردو
قیامت تک مسلسل لوگ عزاداری کریں گے
قلم کو جرأتِ بیباک گر ملی ہوتی
تو اس چمن کو بھی ہم دشتِ کربلا لکھتے
سنا ہے گرم ہے بازارِ کربلا اب کے
چلو جمیلؔ وہیں سر فروخت کرتے ہیں
میں وہی، شمر وہی، شمر کا خنجر بھی وہی
آج پھر قتل کیا جاؤں تو زندہ ہوجاؤں
سخن فہمی اور سخن سنجی ، جمیلؔ اصغر کو ورثے میں ملی ہے۔ مطالعہ اور مشاہدے نے جدّت ونُدرت اختیار کی ہے اور اِس پیرایۂ اظہار میں جذبات واحساسات کو متشکل کرنے کا جو عمل ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ وصف اُن کی نظموں میں بھی جلوہ گر ہے ۔ ’’انتظار‘‘، ’’شب ہجرت‘‘، ’’جمہوریت کا قتل ‘‘، ’’شہرِ جمیل‘‘ ہی نہیں ’’نذرِ ساحرؔ لدھیانوی‘‘ اور ’’لاک ڈاؤن‘‘ بھی موثر نظمیں ہیں۔ طویل نظم ’’شہر جمیل‘‘ کااندازِ تخاطب ملاحظہ ہو ۔
یہ مرا شہر نگاراں یہ مرا شہر جمیل
کتنے تاریخی حوالوں کا پتا دیتاہے
کتنی پُرنور شبیں اس کی حفاظت میں ہیں
کتنے خوش رنگ اجالوں کا پتا دیتاہے
یہ مرا شہر نگاراں یہ مرا شہر جمیل
عشق کا ساز بھی ہے حسن کی آواز بھی ہے
سانس لیتا ہے تمدن اِسی گہوارے میں
مرکزِ علم بھی ہے ہند کا شیراز بھی ہے
لیکن اُن کی خاص مہارت صنفِ غزل میں نظر آتی ہے۔ موصوف کی بیشتر غزلیںغنّا کی دلآویزی سے مزیّن ہیں۔ حقائقِ زندگی کی گہرائی، سماجی معاشرتی تقاضوں کی نمائندگی کے ساتھ قوتِ بیان اور قوتِ اظہار کی شدّت بھی ان میں جلوہ گر ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
سچائی کو بیچا نہیں دینار ودرہم میں
ہم نے کبھی قاتل کو مسیحا نہیں لکھا
سچ کے الزام میں پھر قتل ہوا ہے کوئی
لاش کو وادئ کربل کے حوالے کردو
کوئی تو دام لگائے ہماری غزلوں کا
ہم اپنی فکر کا زیور فروخت کرتے ہیں
دلوں کو اپنی طرف جب فقیر کھینچتا ہے
تو یوں لگا کوئی روشن ضمیر کھینچتاہے
غریبِ شہر کو کیا آسرا دے
امیر شہر خود بے آسرا ہے
وہی فرعون جو کل تک خدا تھا
عجائب گھر میں اب رکھا ہوا ہے
جمیلؔ اصغرکے یہاں تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کے استعمال کے باوجود سہلِ ممتنع کا انداز نظر آتاہے۔ اردو غزل کے لیے سہلِ ممتنع کی پیش کش نئی نہیں ہے۔ ولیؔ اورنگ آبادی سے لے کر سید بصیرالحسن وفاؔنقوی تک متعدد شعراء نے اِس ضمن میں بھی اپنی فنّی مہارت کا پورا پورا ثبوت فراہم کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سہل کہنا اور شعریت پیدا کرنا بڑا دشوار عمل ہے۔ذرا سی لغزش اچھے خاصے شعر کو نثر بنادیتی ہے۔ جمیل اصغرکی شاعری میں سہلِ ممتنع کا وصف بھی نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اعلیٰ وارفع خیالات کو عام فہم الفاظ میں پیش کرنے کا ہنر انھیں اپنے بزرگوں سے ملا ہے۔ اِس ضمن میں اُن کے چند مقطعے پیشِ خدمت ہیں۔
جمیل کیسے میں اپنا مشاہدہ کرتا
کہ سرِّ ذات کا جب انکشاف تھا ہی نہیں
خدا نے کیسے بلایا جمیلؔ اصغر کو
سب آگئے مرا احرام دیکھنے کے لیے
بتارہا ہے یہ موجوں کا اضطراب جمیل
کئی بھنور ہیں ابھی پیچ وتاب کی زد میں
جمیلؔ وقت کا اعلان ہے کہ اب کے برس
جنوں کے ساتھ سفر پر نکل سکو تو چلو
میری پہچان مرے شعر ہیں اور فکرِ جمیلؔ
میں وہ منظر ہوں کہ جس کا پس منظر بھی نہیں
ہمارے ساتھ چلنا ہے جمیلؔ اصغر تو پھر سن لو
یہ وہ رستہ ہے جس پر آئینہ خانہ بھی پڑتاہے
ہم سے آرائش ِگلشن ہے جمیلؔ
ہم کبھی زینتِ مقتل بھی ہوئے
مقطعے کے یہ اشعار ہی نہیں بلکہ اور غزلوں کے اشعار بھی قاری کے ذہن اور قلب دونوں کے لیے یکساں کشش رکھتے ہیں۔ اِن میں جذبات کی حدّت اور تھرتھراہٹ بھی ہے اور زندگی کے مدّوجزر کا احساس بھی۔ انھوں نے اپنے قرب وجوار سے جو کچھ اخذ کیا ہے اس کو متشکل کرنے کا عمل فطری اور لہجہ نرم وخوشگوار ہے۔ ان میں حُسن کی تحسین، تاثیر، شعریت اور زندہ دلی ہے۔ الفاظ کا اتار چڑھاؤ، ردیف وقافیہ کی چُستی، معاملہ بندی اور محاورات کا رکھ رکھاؤ بھی خوب ہے۔ اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جمیل اصغرؔ کا شعری مجموعہ ’’لہو ٹپکتا ہے‘‘ ادبی حلقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…