ابوشحمہ انصاری
مضمون نگارہفت روزہ’’نوائے جنگ‘‘لندن کے لکھنو بیورو چیف ہیں
شمسی مہینے ہوں یا قمری ان کی تعداد ایک ہی ہے یعنی سال کے بارہ مہینے ۔شمسی سال جنوری سے شروع ہوتا ہے جب کہ اسلامی سال قمری مہینے سے شروع ہوتا ہے اسے محرم الحرام کہتے ہیں اس مہینے کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ حرمت والا مہینہ ہے اور اس کے معنی ہیں ’’عزت و احترام‘‘والا مہینہ ۔
’’محر‘‘ کا مہینہ ان چار مہینوں میں آتا ہے جس میں جنگ و جدال کو حرام قرار دیا گیا تھا اور عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ جاہلیت کے دور میں بھی اس مہینے میں لڑائی کو حرام سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا نام ’’محرم‘‘ پڑ گیا ۔
اور اسلام آنے کے بعد اس مہینے کو عزت و تکریم والا مہینہ کہا گیا جیسے زمانہ جاہلیت میں عرب اسے حرمت والا مہینہ سمجھ کر لڑائی چھوڑ دیتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اتفاق رائے سے اسے سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ اللہ نے مہینوں کی تعداد بارہ ہی بتائی ہے عربوں نے کچھ مہینوں کو محترم قرار دیا تھا پھر شریعت محمدی نے بھی یہ چار مہینے رجب، ذیقعد، زوالحجہ،محرم کو حرمت والے مہینے قرار دیا ہے یعنی ان چار ماہ میں جنگ وجدال کو منع فرما کر امن و سلامتی سے رہنے کو ترجیح دی گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی الہامی کتاب میں فرمایا۔
’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اوراللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا، اورمسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور یہ فتنہ انگیزی اور قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہ ‘‘
پھر فرمایا :” اللّٰہ نے عزت و ادب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے دینی و دنیاوی امورمیں قیام امن کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹی والے جانوروں کو بھی (جو حرم کعبہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے) یہ اس لیے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللّٰہ خوب جانتا ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے ‘‘۔
جیسے قرآن پاک میں محرم الحرام کے بارے میں بتایا گیا ایسے ہی احادیث میں بھی اس ماہ کے حوالے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات موجود ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہودیوں کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُن سے پوچھا۔
یہ کون سا خاص دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو انہوں نے کہا یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللّٰہ تعالی نے اس میں موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی تھی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکرانے کا روزہ رکھا لہذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حقدار اور قریبی ہیں پس اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
ایک اور روایت ہے جسے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ اس دن کی یہودو نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :جب اگلا سال آئے گا تو ہم ان شاءاللہ نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے راوی کہتے ہیں کہ ابھی اگلا سال نہ آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وصال فرما گئے ۔
حضرت ابوقتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا‘‘۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں یہ قمری مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو دین کی سربلندی کے لیے اپنا وطن چھوڑنا پڑے یا کسی قسم کی بھی مشکل پڑے تو خود کو اس کے لئے تیار کرنا ہو گا کیونکہ دین حق کے لیے اگر جان کی قربانی بھی دینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا بلکہ اپنی ایمانی قوت اور اللّٰہ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے جیسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈٹ گئے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
یوں ایک عظیم قربانی دے کر وہ امر ہو گئے۔ اسی مہینے میں عبادات کرنا، نوافل ادا کرنا،غریبوں کو کھانا کھلانا، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنا باعث ثواب ہے ۔ رمضان اور زوالحجہ کے بعد اس مہینے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان دنوں میں ذکر الہیٰ میں مصروف رہنا، خود کو برائیوں اور گناہوں سے بچانا، اپنے گناہوں پر نادم ہونا اور اپنے آپ کو رب کے احکامات کی پیروی پر سختی سے کاربند رکھنا باعثِ ثواب اور باعثِ نجات ہے۔