از قلم :شہلا خضر
کراچی۔ پاکستان
سرمئی بادلوں نے پنکھ پھیلائے اور کوئل نے موسم برسات کی آمد کے گیت سناۓ ۔۔۔۔سبک رفتار ہواؤں کے دوش پر حریم ادب کراچی نے بہر ملاقات کا سندیسہ بھیجا ۔۔۔۔۔۔ دل کے قریب عزیز تر قلم کار بہنوں سے بالمشافہ ملاقات کا موقع نصیب ہوا تو اپنی تمام تر مصروفیات کو بالاۓ طاق رکھا اور جماعت اسلامی کے مرکز ادارۂ نور حق جا پہنچے ۔ میزبانی کی ذمہ داری ہمارے سپرد تھی اسی لیے قبل از وقت پہنچنا ضروری تھا۔
ادب اطفال کی نئ جہتیں کے عنوان سے اس تربیتی پروگرام میں مدعو تھے علم و ادب کی جانی مانی شخصیت ماہنامہ ’’وی شائن‘‘اور جگمگ تارے کے مدیر اعلیٰ اور ڈائیریکٹر الامام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جامعتہ الامام نعمان بن ثابت ’نجیب احمد حنفی ‘صاحب تشریف لائےتھے۔
گفتگو کیا تھی گویا اذہان کے بند کواڑ کھولنے کی جادوئی کنجی تھی ۔۔۔ایک کے بعد ایک کواڑ کھلتے چلے گئے ۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ لکھاریوں کو جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اطفال کی ذہن سازی کرنی چاہیے ۔بچوں کو کہانی کے زریعے آنے والے وقت کے لیے تیار کریں۔ترقی کی راہ پر وہی قومیں چلتی ہیں جومستقبل کے لیۓ پلاننگ کرتی ہیں۔معاشرے کی تشکیل میں لکھاری اہم ذمہ داری پر فائض ہیں۔
انہوں نے بچوں کے حوالے سے کہا کہ’’ہمیں فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہم آنے والے وقت میں اپنے بچوں کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں میں ابتدا ہی سے قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں ۔ہمیں کہانی کے ذریعے بچوں کو اپنی تاریخ واقدار سے روشناس کرواتے ہوئے آنے والے چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنا ہے۔بچپن کی ذہن سازی پوری شخصیت کی بنیاد بنتی ہے۔دنیا میں نئی جہتیں اختیار نا کرنے والے ترقی کی شاہراہ پر پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ہمیں بحثیت لکھاری جدید ٹیکنالوجی سیکھتے ہوئے اس کی ضرورت کے مطابق مواد لکھنا ہوگا۔ادب اطفال کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بیشتر خواتین اور یوتھ نے اطفال کے لیے نئے زاویوں سے لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا‘‘ ۔
نجیب حنفی صاحب نے خواتین کے مختلف سوالات کے جوابات بھی دیے ۔
اس کے بعد ہمارے پروگرام کے دوسرے حصے میں ہر دل عزیزشخصیت اور صدارتی ایوارڈ یافتہ لکھاری راحت عائشہ تشریف لائیں۔
راحت عائشہ نہ صرف لکھاری ہیں بلکہ بیکن ہاؤس میں تدرریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں ۔اس کے علاوہ اپنی آن لائن اکیڈمی میں غیر ممالک میں مقیم پاکستانی نژاد بچوں کو اردو زبان کی تعلیم بھی دے رہی ہیں۔
راحت عائشہ نے اسکرین پر اپنی ورکشاپ کے ذریعے کہانی کے خدو خال اس کی بناوٹ اور موضوع کے انتخاب کے حوالے سے بہترین معلومات پہنچائیں۔
عائشہ راحت نے کہا’’ادب کی جس صنف پر لکھنا چاہیں اس کا مطالعہ لازمی ہے ۔تحریر کو پر اثر بنانے کے لیے جملوں میں ربط کے ساتھ غیر ضروری طوالت سے بچنا چاہیے۔کہانی کو روایتی نصحیتوں کے بجائے دلچسپ ودل پسند پیرائے میں سبق آموز بنانا چاہیے۔کہانی تخیل کی مرہون منت ہوتی ہے اور تخیل کی بنیاد پر ہی دنیا میں ایجادات ہوتی ہیں ۔ہمیں بحیثیت لکھاری انسان دوست خیالات کی آبیاری کرنی چاہیے ۔کہانی کا پلاٹ اردگرد کے واقعات کے اچھوتے پہلو کو اجاگر کرے تو سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ کہانی کی بنیاد تخیل پر ہوتی ہے اور کہانی میں نصیحت دلچسپ پیرائے میں کریں ۔اس کے علاوہ کہانی کا پلاٹ اردگرد کے اچھوتے واقعات سے اخذ کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے مشاہدہ بہت ضروری ہے ۔ان کے بتائے تمام نکات لکھاری بہنوں نے جلدی جلدی اپنی نوٹ بکس میں محفوظ کرلیے۔
راحت عائشہ کی پریزینٹیشن جاری تھی کہ موسم کے تیور بگڑنے لگے اور گہرے سرمئی بادلوں نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر لیا۔۔۔سب شرکا کو گرماگرم چائے سموسے نوش جاں کیا گیا ۔۔۔
اختتامی کلمات میں عزیز استاد مربی اور حریم ادب کی نگراں عشرت زاہد نے سب کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور اس مفید پروگرام کے بعد سب کی جانب سے مزید اچھی اور نئی جہت پر لکھی کہانیاں موصول ہونے کی امید ظاہر کی ۔
پروگرام کے اختتام سے پہلے حسب روایت حریم ادب کی ممبر عینی عرفان کی پہلی کتاب ’’مٹی کے مکین ‘‘ کی رونمائی کی گئی ۔عینی عرفان ہمارے حریم کےقافلے کی بہترین ساتھی ہیں ۔ان کی کہانیاں اور افسانے حقیقی زندگی کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔عینی نے سب ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ خصوصی طور پر عشرت زاہد کی شکر گزار ہیں جنہوں نے کتاب کی طباعت کے لیے ہمت بندھائی ۔نگراں نشرو اشاعت کراچی ثمرین احمد کی دعا پر پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔۔
نماز عصر ادا کر کے ادارے سے باہر نکلے تو آسمان نے زرد چادر اوڑھ رکھی تھی۔۔۔خوب صورت موسم ٹھنڈی ہواؤں نے استقبال کیا۔۔۔۔۔ تمام بہنوں نے مسکراتے چہروں سے ایک دوسرےکو الوداع کہا اور اپنے گھروں کی طرف رخت سفر باندھا۔