Urdu News

آزادی کے بعد احساس شکست سے مسلمانوں کو اردو صحافت نے نکالا:شاہد صدیقی

مجدد آئی او ایس سینٹر فار آرٹس اینڈ لٹریچر میں’ آزادی اور جمہوریت کی جدو جہد، اردو صحافت اور مولانا عبدالوحید صدیقی‘ کے موضوع پر مجلس گفتگو

مجدد آئی او ایس سینٹر فار آرٹس اینڈ لٹریچر میں’ آزادی اور جمہوریت کی جدو جہد، اردو صحافت اور مولانا عبدالوحید صدیقی‘ کے موضوع پر مجلس گفتگو

آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان احساس شکست میں مبتلا تھا، اردو صحافت نے اس احساس کمتری سے نکالا۔ابھی جمہوریت کے خد وخال واضح نہیں ہوئے تھے۔ لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ آئین ان کو کیا حقوق اور کتنی آزادی دیتا ہے۔ اس ماحول میں مولانا عبدالوحید صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے آزادی تحریر و تقریر کی جدو جہد کی اور اس کے حدود کو بڑھایا۔ان خیالات کا اظہار ہفتے کو یہاں ’آزادی اور جمہوریت کی جدو جہد ، اردو صحافت اور مولانا عبدالوحید صدیقی‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کیا۔

شاہد صدیقی’ آزادی اور جمہوریت کی جدو جہد، اردو صحافت اور مولانا عبدالوحید صدیقی‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے

وہ مجدد آئی او ایس سینٹر فار آرٹس اینڈ لٹریچر کی ایک مجلس گفتگو سے خطاب کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ آج ہمارے سامنے مسئلہ اس ہندوستان کو زندہ رکھنے کا ہے جس ہندوستان کا خواب گاندھی ،نہرو، آزاد اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا تھا.  ہماری پارلیمنٹ جمہوریت کا میوزیم بن کر رہ گئی ہے جبکہ مشہور صحافی اور صحافت کے پروفیسر شاہین نظر نے کہا کہ ایک جنگ ہمارے بزرگوں نے لڑی تھی اور اب ایک جنگ ہمارے حصے میں آئی ہےاور یہ جمہوریت اور آزادی کی بقا کی جنگ ہے۔ نظر نے اپنے صدارتی کلمات میں مزید کہا کہ ہم اس جنگ کو جب ہی جیت سکتے ہیں کہ احساس کمتری سے باہر آئیں ۔

مجدد آئی او ایس سینٹر فار آرٹس اینڈ لٹریچر میں شرکا بڑی تعداد میں دیکھے جا سکتے ہیں

 اس سے قبل مشہور صحافی اور ” مولانا عبدالوحید صدیقی صدیقی: مجاہد آزادی اور معمار صحافت کے مؤلف احمد جاوید نے کہا کہ صحافت کے کاروبار میں جس ماڈل کا تجربہ ہندوستان کی آزادی کی پہلی دہائی میں مولانا عبدالوحید صدیقی نے روزنامہ”نئی دنیا” کی صورت میں کیا تھا، وہی ماڈل آج بھی معقول و مؤثر ہے جبکہ ڈاکٹر شفیع ایوب نے کہا کہ صحافت کے کاروبار کا رائج ماڈل تین ہیں، ایک تو یہ کہ آپ سرکار سے اشتہارات لیتے ہیں، پھر آپ کو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف زبان بند رکھنا ہوتا ہے، دوسرا ماڈل بازار کا ہے لیکن اگر سرکار اور بازار دونوں مل جائیں تو کیا کریں گے، یہ صحافت کی بقا کا سوال ہے، معروف صحافی سہیل انجم نے اس موقع پر ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو صحافت کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد اردو صحافت کا کردار بدل گیا اور اس نے اب پہلے سے بھی مشکل لڑائی لڑی۔انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالوحید صدیقی نے تازندگی آزادیٔ صحافت کا علم بلند رکھا اورحق صداقت کا سر کبھی جھکنے نہیں دیا۔

 ڈاکٹر ابرار رحمانی نے اردو صحافت کے شاندار ماضی کو جذباتی انداز میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کے جوچند ادارے کی شاندار تاریخ ہے، ان میں نئی دنیا اور صدیقی گھرانے کا امتیاز یہ ہے کہ مولانا کے وارثوں نے ان کی قائم کردہ روایت کو آگے بھی زندہ رکھا جبکہ ڈاکٹر ابھے کمار نے اردو اور ہندی پریس کے کردار کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک کو قدم قدم پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہےاور دوسرے کی کوریج کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن اس پر کسی کی زبان نہیں کھلتی۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا میں ہندوستان کی جی ڈی پی پانچویں نمبر پر ہے لیکن ہمارا پریس دنیا میں ۱۶۱ویں مقام پر کیوں ہے۔

مجلس گفتگو کا آغاز اطہر حسین کی تلاوت قرآن سے ہوا، تعارفی کلمات مجدد آئی او ایس سینٹر کے کنوینر انجم نعیم نے پیش کئے اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر شفیع ایوب انجام دے دے رہے تھے۔شرکا میں مشہور ادیب و کالم نگار عظیم اختر، سید ظفر حسن، اشرف بستوی، محمد کلیم، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر شعیب رضا خاں، محمد افضل خاں، صفی اختر، مولانا انور علی، نفیس الرحمٰن، سہیل ہاشمی، عشرت ظہیر، جاوید احمد، ڈاکٹرجاوید حسن ، وسیم احمد اور اہل ادب و صحافت کی کثیر تعداد شامل تھی۔

Recommended