آج سے قریب چار ہزارسال پہلے عراق میں بابل اور نینوا کی تہذیب کے لوگ جب اوپر آسمانوں میں دیکھتے تو اُنہیں مہینے میں چاند گھٹتا بڑھتا نظر آتا۔۔ چاند کی پیدائش سے آدھے چاند تک سات دن، پھر پورے چاند تک سات دن ۔ مگر چاند کی پیدائش سے نئے چاند کی پیدائش تک ساڑھے 29 دن لگتے ہیں سو آخری ہفتے میں ایک یا دو دن جمع کر دیے جاتے۔ ہفتے میں سات دنوں کا تصور وہاں سے آیا۔ اس سے پہلے مصری تہذیب میں ہفتہ دس دن کا ہوتا جبکہ رومیوں کے ہاں 8 دن کا۔ ہفتے کے سات دن
ہفتے کے نام انہوں نے آسمان پر سات دِکھنے والے اجرام، سورج، چاند، عطارد، زہرہ،مریخ، مشتری اور زحل سے لئے۔سات آسمانوں کا تصور بھی یہی سے آیا۔ بابل و نینوا کے لوگوں کے نزدیک یہ ساتوں اجرامِ فلکی اپنے اپنے آسمان میں تیرتے۔
آج بھی لاطینی زبان, فرانسیسی،ہسپانوی ، اطالوی میں ہفتے کے دنوں کے نام انہیں اجرام فلکی پر ہیں۔
Monday….. Moon… Dies Lunae
Tuesday…Mars….Dies Martis
Wednesday…. Mercury… Dies Mercurri
Thursday… Jupiter…. Dies Jovis
Friday…. Venus… Dies Veneris
Saturday….Saturn… Dies Saturini
اسی طرح دن کی تقسیم 24 گھنٹے یا حصوں میں دراصل سورج ڈھلنے سے دوپہر تک بارہ گھنٹے،یہ دائیں ہاتھ کی اُنگلیوں پر بارہ کی گنتی سے نکلے۔ جبکہ ایک گھنٹے میں 60 سیکنڈ کا تصور دائیں ہاتھ کی پانچوں اُنگلیوں سے بائیں ہاتھ کے بارہ جوڑ پانچ مرتبہ گن کر 60 تک پہنچے۔
اُن زمانوں میں وقت کی تقسیم اتنی اہم نہیں تھی جتنی کہ آج ہے۔ مگر یہ کہنا درست ہو گا کہ انسان نے وقت کو آسمانوں سے سیکھا۔