اسرائیل کے ایک سینئر قانون ساز نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل تہران کے جوہری پروگرام کی کڑی نگرانی میں شامل ہو تو وہ ایران امریکہ کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کو قبول کر سکتا ہے۔صہیونی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ یولی ایڈلسٹائن نے ہفتے کے روز نشر اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ ایسے اقدامات کا خاکہ تیار کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔
ان اقدامات میں ایرانی ایٹمی پروگرام کو محدود کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ان اقدامات کو امریکی کانگریس کی طرف سے نظرثانی کرنے والے معاہدے کی بجائے ایک “افہام و تفہیم” کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یہ ویسا معاہدہ نہیں ہوگا جو 2015 میں ہو رہا تھا اور جسے 2018 میں سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ختم کردیا تھا۔
یولی ایڈلسٹائن نے کہا کہ یہ وسیع دائرہ کار کا معاہدہ نہیں ہے۔ یہ مفاہمتی یادداشت کی طرح کا ایک چھوٹا معاہدہ ہے۔ میرے خیال میں اگر حقیقی نگرانی کی جائے تو اسرائیل اس طرح کے سمجھوتے کے ساتھ رہ سکتا ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے یولی ایڈلسٹائن کے اس حالیہ بات چیت پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔منگل کو نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ہمارا موقف واضح ہے۔ ایران کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ اسرائیل کو پابند نہیں کرے گا۔ اسرائیل اپنے دفاع کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا۔
ممکنہ افہام و تفہیم کا ایک بنیادی عنصر جو ابھی تک غیر واضح ہے وہ یہ ہے کہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو کس حد تک لگام دینے پر راضی ہوگا۔ نیتن یاہو کے حلقے میں اسرائیلی حکام نے اس ماہ اس معاملے پر ممکنہ طور پر مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔