Urdu News

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ہوئے بے نقاب، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے دہشت گردوں کی لابنگ کرنے پر کی سرزنش

عمران خان ، پاکستان کورٹ میں کچھ اس طرح ناراض نظر آئے

سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان شدید بحث ہوئی۔ ایک کیس کی سماعت کے بعد پاکستانی عدالت نے وزیر اعظم خان کی سرزنش کرتے ہوئے یاد دلایا کہ آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ سماعت کے دوران ہی عمران نے جج سے کہا کہ ایک منٹ انتظار کریں جج صاحب ذرا معلوم کریں کہ 80 ہزار لوگوں کو کس نے مارا۔ یہ بھی جانیں کہ پاکستان پر 480 ڈرون حملوں کے پیچھے کون ذمہ دار ہے؟  اس کے بعد چیف جسٹس نے عمران خان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ان جھانسوں کا پتہ لگانا آپ کا کام ہے، آپ وزیراعظم ہیں۔

درحقیقت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو 2014 میں آرمی اسکول پر دہشت گردانہ حملے سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بدھ کو کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیس کی سماعت کے دوران ایک بار پھر یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ عمران حکومت دہشت گردوں کے سامنے جھک گئی ہے۔ عمران حکومت نے عدالت میں نہ صرف تحریک طالبان کا ساتھ دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ملک میں کوئی  'ہولی کاؤ' یعنی دودھ کادھلا نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسانی نے عمران خان سے کہا کہ اسکول حملے میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے والدین اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب اے پی ایس کا قتل عام ہوا تھا۔ اس پر خان نے کہا کہ جب یہ قتل عام ہوا تو ان کی جماعت خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار تھی۔ دہشت گردی کے واقعے کے وقت وہ ہسپتالوں میں سوگوار والدین سے ملے تھے، چونکہ وہ اس سانحے سے متاثر تھے، اس لیے ان سے ٹھیک سے بات کرنا ممکن نہیں تھا۔اس کے علاوہ بھی عدالت نے عمران خان سے کئی سوالات کیے لیکن جب عدالت نے وزیراعظم کو ہدایت کی کہ وہ اپنے 20 اکتوبر کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وزیراعظم ہیں، آپ کو جواب دہ  ہونا چاہیے، تو عمران خان نے کہا کہ جج صاحب ایک منٹ ٹھہریں، اللہ اسکول کے بچوں کے والدین کو صبر دے، حکومت معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتی تھی؟ اس کے آگے انہوں نے کہا کہ معلوم کریں کہ 80 ہزار لوگوں کو کس نے مارا۔ یہ بھی جانیں کہ پاکستان پر 480 ڈرون حملوں کے پیچھے کون ذمہ دار ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان چیزوں کا پتہ لگانا آپ کا کام ہے، آپ وزیراعظم ہیں۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ 16 دسمبر 2014 کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے شدت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا تھا جس میں 140 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان میں زیادہ ترا سکول کے بچے تھے۔ متاثرہ خاندانوں نے عدالت سے واقعے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

https://urdu.indianarrative.com/world-news/why-did-the-government-of-pakistan-which-calls-maulana-saad-rizvi-indian-agent-compromise-with-tlp-26600.html

Recommended