ضیاؔ فاروقی
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحرؔ کے اس شعر کی روشنی میں اگر ان کے شعری اثاثہ کا جائزہ لیا جائے تو انورسدید کی اس رائے سے اتفاق کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے کہ ”ساحرؔ کا یہ شعر ان کی شاعری کا منشور بھی ہے اور ان کے فن کی بوطیقا بھی“۔ دیکھا جائے تو ساحرؔ ہمیشہ انتشار کا شکار رہے۔ وہ ۸/مارچ ۱۹۲۱ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور ۲۵ اکتوبر ۱۹۸۰ءکو بمبئی میں آخری سانس لی۔ ہوش سنبھالا تو سایہ پدری کی جگہ ماں کا آنچل نظر آیا جو اپنے شوہر چودھری فضل محمد سے اپنے حقوق کے لیے جنگ کررہی تھیں۔
چودھری فضل محمد نہ صرف یہ کہ لدھیانہ کے بڑے جاگیردار تھے بلکہ کثیرالازدواج بھی تھے۔ ساحرؔ کی والدہ سردار بیگم ان کی گیارہویں بیوی تھیں۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ چودھری فضل محمد کی دس بیویوں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی مگر سردار بیگم کی گود ہری ہوئی اور ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی۔
عبدالحیئ نام رکھا گیا جو دنیائے ادب میں ساحرؔ لدھیانوی کے نام سے مشہور ہوا۔ ساحرؔ ابھی چہہ ماہ کے ہی تھے کہ سردار بیگم کا اپنے شوہر سے چند بنیادی حقوق کو لے کر جھگڑا ہوگیا اور وہ انھیں لے کر اپنے بھائیوں کے گھر آگئیں۔ پھر دونوں کے مابین مقدمہ بازی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو ساحرؔ کی نوجوانی تک چلتا رہا
ان حالات نے ساحرؔ کو جہاں ا نتہائی حساس بنادیا وہیں مزاج میں بغاوت کے رنگ بھی ابھر کر سامنے آئے ۔ ساحرؔ لڑکپن سے ہی نظم گوئی کی طرف مائل ہوچکے تھے۔ چنانچہ انھوں نے عمر کے تقاضہ کے زیراثر جہاں رومانی نظمیں کہیں وہیں اپنے باغیانہ خیالات کا منظوم اظہار بھی کیا، وہ اپنے کالج کی اسٹوڈینٹ فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ بعد میں کچھ رومانی اور کچھ سیاسی وجوہ کی بنا پر انھیں لدھیانہ چھوڑکر اپنی ادھوری تعلیم پوری کرنے لاہور آنا پڑا اور یہاں دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا۔
لاہور اس وقت ادبی منظرنامے پر انتہائی روشن اور تابناک تھا اور حالی اور محمد حسین آزاد جیسے ثقہ ادبی حضرات کے لگائے ہوئے پودے چھتنار درخت بن کر اپنی بہار دکھارہے تھے اور علامہ اقبال، پطرس بخاری، فیض احمد فیضؔ اور حفیظ جالندھری کی بساط سخن کے چرچے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ ساحرؔ کی آتش شوق کو یہاں مزید جلا ملی۔
جہاں تک ساحر کے شاعرانہ قدوقامت کی بات ہے تو جیسا کہ رقم کیا جا چکا ہے کہ طالب علمی کے دور سے ہی ان کی رومانی اور انقلابی نظمیں ادبی حلقوں میں مقبول ہوچکی تھیں۔ ان کا شعری مجموعہ ”تلخیاں“ منظرِ عام پر دورانِ تعلیم ہی شائع ہوکر مقبول ہوچکا تھا پھر لاہور میں ادب لطیف اور شاہکار جیسے معیاری رسائل سے وابستگی نے ان کی شہرت میں چارچاند لگادیئے تھے۔ اس زمانے میں تاج محل، جاگیردار، نورجہاں اور چکلے وغیرہ کا شہرہ ملک بھر میں تھا۔
دراصل ساحر سے پہلے فیض احمد فیضؔ، مجازؔ، مخدومؔ وغیرہ جس طرح رومانی فضا میں انقلابی نظمیں لکھ رہے تھے ساحرؔ پر اس کا اثر یقینی طور پر پڑا مگر انھوں نے اپنے احتجاجی رنگ کو رومانی پیراہن میں اس طرح پیش کیا کہ وہ ان کی انفرادی شناخت بن گیا۔ ” میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے ” یا پھر ” تو کہ عورت ہے علاج غم دنیا تو نہیں ” جیسی نظموں میں ساحرؔ کا رنگ اور لے انھیں اپنے عہد کے دوسرے معتبر شعراء سے الگ کرتی ہے ۔
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا تو خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اُداس رہتا ہوں
ساحرؔ کی نظمیں خواہ وہ کسی منظر سے تعلق رکھتی ہوں ان کی تہہ میں محرومی اور یاسیت کا ایک سیل بے پناہ ہے۔ لدھیانہ میں اپنی طالب علمی کے تعلق سے جو نظم ہے اس کا تو عنوان ہی ”سرزمین یاس“ہے۔
کالج کی رنگین وادیاں۔ وہ دل نشیں آبادیاں
کرکے محبت آشنا۔ رنگ عقیدت آشنا
داغ جدائی دے گئی۔ ساری خدائی لے گئی
دیکھا جائے تو پچھلی صدی کا وہ زمانہ جس میں نوجوان شعراء اپنی فکر تازہ سے ایوان شاعری میں اجالا کئے ہوئے تھے وہ مشرقی معاشرے میں عورت کی خصوصی اہمیت اور شناخت کے اعتبار سے بہت اہم تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان شاعروں کے یہاں عورت یا محبوبہ کا تصور خلوتوں کو رنگین بنانے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اپنے محبوب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جہد حیات کے ہر محاظ پر ان کے شانہ بشانہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے فلمی نغمے ہوں یا ادبِ عالیہ کی نظمیں، رومانی فضامیں جہاں صنف نازک کے تئیں احترام ہے وہیں معاشرے سے احتجاج کی لے بھی بہت تیز ہے۔اس کی بہترین مثال تاج محل ہے۔ ”مرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے“ اس طرح کی کئی نظمیں ہیں جس میں ساحرؔ اپنے عہد کے بوزوا سماج سے ناراض نظر آتے ہیں۔
ان کی ہجر کے تعلق سے جو نظمیں ہیں وہ یقینا شاعر کی زندگی کی محرومیوں کی ایک مکمل تصویر پیش کرتی ہیں۔ تیری آواز، ایک ملاقات، خوبصورت موڑ، کبھی کبھی وہ لافانی نظمیں ہیں جو آج بھی زندہ ہیں اور آنے والے زمانوں میں بھی زندہ رہیں گی کہ ان کے اندر تہہ در تہہ جذبات کا ایک دریا موجزن ہے۔
نہ کوئی جادہ نہ منزل نہ روشنی کا چراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انھیں خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یوں ہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
یا پھر نظم “معذور ” کا یہ بند جس میں شاعر نے انتہائی کرب کے ساتھ اپنی محبوبہ کو مخاطب کیا ہے ۔
مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آسکتا نہیں
میں کہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہوچکی
جبر بھی خود پر کروں تو گنگنا سکتا نہیں
اسی طرح ان کی ایک نظم ’شکست‘ ہے جس میں ساحرؔ کہتے ہیں ۔
بجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسن پشیماں سے مجھے کیا لینا
ترے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو
مری افسردگی غم کا مداوا تو نہیں
ساحرؔ کے یہاں جرأت بے پناہ تھی، خواہ وہ اپنی ذات کے حوالے سے ہو یا سماج کے حوالے سے۔جس کا ایک بین ثبوت وہ نظم ہے جو انھوں نے غالبؔ صدی کے موقع پر لال قلع کے مشاعرے میں ارباب قتدار کی موجودگی میں پڑھی تھی اور جس کی گونج پورے برصغیر میں سنائی دی تھی اور جس میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ” گاندھی ہوں کہ غالب ہوں ہم دونوں کے قاتل ہیں دونوں کے پجاری ہیں “
اکیس برس گزرے آزادی کامل کو
اب جا کے کہیں ہم کو غالب کا خیال آیا
اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے
غالب جسے کہتے ہیں اردو ہی شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ کرم کیوں ہے
ایسی جرأت اور ایسی بے باکی ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف ساحرؔ جیسے جرأت مند اور کھرے شاعروں کا ہی حصّہ ہے۔
ساحر نے نظموں کے مقابلہ میں غزلیں کم کہی ہیں لیکن اس میدان میں ان کا جو بھی اثاثہ ہے اس کی قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سا رگ جاں کے قریب آج بھی ہے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسم عہدمحبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں
سیکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے
٭
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
٭
مانا کہ اس زمین کو نہ گلزار کرسکے
کچھ خار کم تو ہوگئے گزرے جدھر سے ہم
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں
میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں
ہمیں سے رنگ گلستان ہمیں سے ر نگ بہار
ہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں
فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کسی بےبس کا سہارا نہیں ہوتی
درج بالا اشعار کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ساحر کی غزلوں میں آس اور یاس کے امتزاج سے جو منظر ابھرتا ہے اس میں تغزل کے روایتی کلاسیکی رنگ بھی ہیں اور معاشرے کے کیف و کم کا بیانیہ بھی
بہرکیف ساحر کی نظمیں ہو یا غزلیہ شاعری جہاں ادب عالیہ میں اپنی انفرادیت کے سبب روشن رہیں گی وہیں فلمی جگت کے پرانے ریکارڈ بھی شائد کبھی باسی نہ ہوں گے۔