تہذیب و ثقافت

ہندوستان کی سرزمین روحانیت کے نقطۂ نظر سے پہلے ہی بہت زرخیز تھی اس لیے یہاں تصوّف پھلا پھولا: ڈاکٹر مہدی

مدھیہ پردیش اردو اکادمی سنسکرتی پریشد محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام “وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے” اردو ادب میں وحدت الوجود پر مبنی محفل صوفیانہ: صوفی سیمینار، صوفیانہ مشاعرہ اور فکری اجلاس کا انعقاد۱۲ مئی ۲۰۲۳ کو ٹرائبل میوزیم آڈیٹوریم، شیاملہ پلس، بھوپال میں کیا گیا۔

پروگرام کی شروعات میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے  تمام مہمانان کا استقبال کرنے کے بعد پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام اردو ادب میں وحدت الوجود پر مبنی ہے۔جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ مدھیہ پردیش کا جو محکمہ ثقافت ہے وہ اپنی مختلف اکادمیوں کے ساتھ ملک کا سب سے زیادہ فعال اور متحرک محکمہ ہے۔ اور یہ محکمہ اپنی مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

اس ادارے کے زریعے جو پروگرام منعقد ہوتے ہیں ان ذریعے محکمہ کا مقصد یہ ہے کہ سماجی آہنگی کا پیغام عام ہو اور محبت کا پیغام عام ہو۔آج کا پروگرام بھی اسی پیغام کو لے تصوف پر مبنی ہے۔ تصوف جو ہندوستان کی سرزمین پر اس لیے پنپا، اس لیے بہت مقبولیت اس نے حاصل کی کیونکہ یہاں کا پس منظر روحانی تھا۔ آپ سبھی اس بات سے متفق ہوں گے کہ روحانیت ہندوستان کا خاصہ ہے. اسی لیے صوفیوں نے اور  سنتوں نے یہاں سے محبت کا پیغام عام کیا ہے۔

اسی پیغام کو لے کر اور اردو میں صوفیاء کرام کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کا پروگرام منعقد کیا گیا ہے. یہ پروگرام تین اجلاس پر مبنی ہے، پہلے  اجلاس کے تحت دوپہر 2 بجے صوبے کے سبھی ضلع کوآرڈینیٹروں کے ساتھ فکری اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں اکادمی کے زیر اہتمام آنے والے دنوں میں منعقد ہونے والے سلسلہ اور تلاش جوہر پروگرام کے خاکے کو لے کر غور و فکر کیا گیا۔دوسرا اجلاس شام 5 بجے منعقد کیا گیا جس میں “وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے” کے تحت اردو ادب میں وحدت الوجود پر مبنی  صوفی سیمینار میں ملک کے ممتاز ادبا شمیم طارق ممبئی، ضیا علوی لکھنؤ اور ڈاکٹر مہتاب عالم بھوپال نے اظہار خیال کیا۔

شمیم طارق نے کہا کہ “مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے صوفی سیمینار کے عنوان سے جو پروگرام منعقد کیا ہے اس کا خاص مقصد یہ ہے کہ انسان کو انسانی رشتوں سے جوڑنا ہے۔اب اس کی تشریح کے لیے اس کی توضیح کے لیے بہت سے گوشے ہیں سب اجاگر ہوں اور سب پر گفتگو ہو اور ہماری کوشش ہو کہ انسان کا انسانیت سے رشتہ مضبوط ہو. ضیا علوی نے کہا کہ تصوف کا اور معرفت کا جو سب سے پہلا کام جو ہے وہ انسان کو انسان سے جوڑنے کا کام ہے۔

 اس کے ذریعے ایک الکھ انسان کے دل میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک انسان کو تکلیف ہو دکھ ہو تو اس کا درد دوسرے انسان کو بھی محسوس ہو اور وہ اس انسان کے دکھ کو دور کرنے کی کوشش کرے. ڈاکٹر مہتاب عالم نے کہا کہ وحدت الوجود تعلیمات کی نہ صرف ہندوستان کو بلکہ اس وقت دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اس پر قائم رہ کر ہی دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔

 صوفیا کی تعلیمات بعد میں ہیں لیکن ہندوستانی سرزمین پر ویدوں اور اپنیشد پر نظر ڈالتے ہیں تو وید جو ہے وہ کرم یوگ کی بات کرتا ہے اور اپنیشد گیان یوگ کی بات کرتا ہے اور یہ وہی تعلیم ہے  جسے ہم راہ معرفت کہتے ہیں۔

 آخری اجلاس کے تحت شام 7 بجے کل ہند مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شعراء نے اپنا کلام پیش  کیا۔مشاعرے میں جن شعراء  نے کلام پیش کیا ان کے نام اور اشعار درج ذیل ہیں۔

رومی ہوئے جو عشق کے ساری روش بدل گئی

طبع سے پوچھتے ہیں خود ترا جلال کیا ہوا

ظفر صہبائی ۔ بھوپال

دیکھ کتنی نفرتیں بوئی ہیں تونے باغباں

پردہء گل میں صبا پکڑی گئی خنجر سمیت

آغا سروش۔ حیدر آباد 

میں نے لکھا تھا کسی کا نام آیت کی طرح

دل عبادت کررہا تھا پہلا پہلا پہلا عشق تھا

اقبال اشہر ۔ دلی

کسی دن زندگانی میں کرشمہ کیوں نہیں ہوتا

میں ہر دن جاگ تو جاتا ہوں زندہ کیوں نہیں ہوتا

را جیش ریڈی ممبئی 

گھر سے نکلے چوک گئے پھر پارک میں بیٹھے

تنہائی کو جگہ جگہ بکھرایا ہم نے

شارق کیفی ۔ بریلی

ایسا نہیں تاثیر ترے در میں نہیں ہے

سجدے کا سلیقہ تو مرے سر میں نہیں ہے

حافظ رفیق محسن اندور

واللہ تیری مست نگاہی بھی خوب ہے

دنیا کے رنگ و نور سے بےزار کردیا

صغیر احمد نوری ۔ بارہ بنکی

جانے کس کا حق دبا کر گھر میں دولت لائے ہو

اور اس پہ یہ ستم اس میں بھی برکت چاہیے

ندیم شاد ۔ دیوبند

اس کو چھوتے ہی انگارہ کیسے بنتی ہے

دیکھو میری خاک ستارہ کیسے بنتی ہے

سالم سلیم ۔ دلی  

سچ کی سب سے بڑی علامت ہے

ہر طرف سے ورودھ ہوتا ہے

گووند گیتے کھنڈوا 

چبھتے ہیں بہت آنکھ سے کنکر نکال دے

یعنی کہ تری یاد کے منظر نکال دے

ایوب عاصم چشتی ۔ بڑنگر اجین

خواب کسی پتھر کا پورا ہوتا ہے

نیندیں ساری کاریگر کی ہوتی ہیں

رشمی صبا ( گوالیار )

رکھا ہےترا نام خدا جب سے محبت

طوفاں بھی سفینہ بھی ہے تیار ہمارا

پونم میرا ( گروگرام) 

دل سے پوچھا تو جواب ایک یہ موصول ہوا

کُن کا جلوہ ہے جو ہر چیز یہاں روشن ہے

 غوثیہ خان سبین 

 سیمینار اور مشاعرے کی نظامت کے فرائض ضیا علوی نے انجام دیے۔ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے آخر میں تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

Dr. R. Misbahi

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago