جے این یو، ہندوستانی زبانوں کا مرکز اور ماس میڈیا کی تعلیم
دہلی میں اراولی کی پہاڑیوں پر ایک ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر بسا جے این یو ایک خواب ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی یعنی جے این یو کی تاریخ پھر کبھی۔
ابھی بات صرف ایک سینٹر کی۔ اور وہ بھی ایک کورس کی۔ تصویر میں یہ جو بلڈنگ آپ دیکھ رہے ہیں یہ اسکول آف لینگویز کی بلڈنگ ہے۔ اس بلڈنگ میں Centre of Indian Languages بھی ہے۔ اس سینٹر میں پہلے اردو ہندی کی تعلیم دی جاتی تھی اور اب تمل، کنڑ، اُڑیہ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میں اس سینٹر میں طالب علم بھی رہا اور استاد بھی۔
اس سینٹر میں ایک اہم کورس ہے ”ایڈوانس ڈپلومہ اِن اُردو ماس میڈیا“ جسے ہم سب کے استاد پروفیسر محمد حسن صاحب نے شروع کیا تھا۔ اس کورس کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ دو سمسٹر کے اس کورس کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو میڈیا ہاؤس میں اچھی ملازمت ملی۔ ابتدا میں پروفیسر محمد حسن صاحب خود یہ کورس پڑھاتے تھے۔ ان کے بعد ڈاکٹر اشفاق محمد خان اور پروفیسر محمد شاہد حسین صاحب یہ کورس پڑھاتے رہے۔ جنوری 2008سے میں نے یہ کورس پڑھانا شروع کیا۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ماس کمیونیکیشن میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔
اس کورس میں مجھے بہت اچھے، ذہین اور قابل اسٹوڈنٹس ملے۔ یہ پارٹ ٹائم کورس ہے۔ شام میں پانچ بجے سے سات بجے تک کلاس ہوتی۔ وہ بھی ہفتے میں صرف تین دن۔ کچھ ایسے بھی اسٹوڈنٹس ملے جو میری عمر کے تھے یا مجھ سے بڑے تھے۔ اردو کے علاوہ عربی، فارسی و دیگر ڈسپلن کے اسٹوڈنٹس بھی یہ کورس کرنے آتے تھے۔ جے این یو کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی و دیگر مقامات سے بھی اسٹوڈنٹس اس کورس میں داخلہ لیتے ہیں۔
پروفیسر محمد شاہد حسین صاحب کے سبکدوش ہونے کے بعد پروفیسر انور پاشا صاحب اور پروفیسر خواجہ اکرام صاحب نے اس کورس کے حوالے سے بھرپور سرپرستی فرمائی۔ بعد میں ڈاکٹر توحید خان اس کورس کے انچارج ہوئے۔ مجھے سینٹر کی جانب سے ایم اے، بی اے، سرٹیفکٹ کورس، اور فارن اسٹوڈنٹس کو ابتدائی اردو پڑھانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے جس کورس کو پڑھانے میں سب سے زیادہ لطف آیا وہ کورس تھا ”ایڈوانس ڈپلومہ اِن اُرود ماس میڈیا“۔ لطف اندوز ہونے کی وجہ؟ اس کورس میں عموماً بہت Mature طالب علم آتے تھے۔ عام طور پر بلند ذہنی سطح کے۔ مشکل سوالات بھی کرتے۔ بطور استاد میں نے ہمیشہ مشکل سوالات کا استقبال کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ بارہا میرے اسٹوڈنس نے میری باتوں سے اختلاف کیا۔ دراصل یہی جے این یو ہے۔
ایک بات جواکثر مجھے جذباتی بنا دیتی ہے وہ ہے میرے طلباکا پیار۔میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے اتنے اچھے اسٹوڈنٹس ملے۔میرے اسٹوڈنٹس نے مجھے بہت پیار دیا۔ نہ جانے کیوں۔ زیادہ تر اسٹوڈنٹس سے میرا جذباتی لگاؤ ہے۔ انھیں کوئی عہدہ ملتا ہے، ان کی کوئی کتاب شائع ہوتی ہے، انھیں کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو میں بے پناہ خوش ہوتا ہوں۔ مجھے اپنے زیادہ تر اسٹوڈنٹس پہ ناز ہے۔ جنھوں نے کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ اسٹوڈنٹس ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ غیر ممالک میں بھی اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کی وجہ سے زیادہ تر طلبا سے ہمارا رابطہ قائم ہے۔
اب اصل بات۔ ہمارے کئی اسٹوڈنٹس یہ کہتے رہے ہیں کہ سر کوئی ایسا موقع ہو کہ ہم سب ایک ساتھ جے این یو کیمپس میں جمع ہوں۔ خیال آیا کہ ایک سیمینار صرف ایڈوانس ڈپلومہ اِ ن اردو ماس میڈیا کے اسٹوڈنٹس کے لئے رکھتے ہیں۔جب میں نے پروفیسر انور پاشا صاحب، پروفیسر خواجہ اکرام صاحب اور ڈاکٹر توحید خان صاحب کے سامنے یہ بات رکھی تو حسب توقع انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور سرپرستی کا وعدہ کیا۔ تو اب آپ بھی تیاری کر لیں۔ موضوع اور تاریخ کا اعلان الگ سے کیا جائے گا۔
”بالی وُڈ فلموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی“ غالباً یہی موضوع ہوگا۔ 20جولائی کے آس پاس یہ سمینار رکھیں گے۔ جمعہ کے روزشام میں افتتاحی اجلاس اور سنیچر و اتوار کو مقالہ خوانی۔ پروفیسر انور پاشا صاحب، پروفیسر خواجہ اکرام صاحب، و ڈاکٹر توحید خان صاحب سرپرستی فرمائیں گے۔ سینٹر کے دیگر اساتذہ کی شرکت بھی ہوگی۔ آپ اپنا موبائل نمبر اور پتہ ہمیں ای میل کر دیجئے۔
shafiayub75@rediffmail.com
(ڈاکٹر شفیع ایوب)
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…