آہ! مولانا زاہد حسین قاسمی بھی اللہ کو پیارے ہو گئے
انا للہ وانا الیہ راجعون
بارہ بنکی/جھارکھنڈ(ابوشحمہ انصاری)
گزشتہ صبح آفس پہنچنے کے فوراً بعد جیسے ہی مولانا کی وفات کی خبر سنی تو کچھ دیر کے لیے دل سکتے میں آ گیا۔ یہ خبر نا قابل یقین معلوم ہورہا تھی لہذا میں نے وہاٹس ایپ کھولا تو پایا کی انکی وفات کی خبر متعدد گروپ میں گردش کر رہی تھی۔
ان کی موت کی خبر سے دل رنجیدہ، اور آنکھیں اشک بار ہو آئ اور یکے بعد دیگرے ان کی تمام تر یادیں اور باتیں تازہ دم ہو اٹھی. حضرت مولانا سے ابھی کچھ روز قبل ہی ایک حج کے الوداعیہ تقریب کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی اور وہ نہایت گرم جوشی سے ملے تھے. انسے ملکر قطعاً ایسا محسوس نہ ہوا کہ وہ بیمار ہیں البتہ مجھے انکے سوگر کے عارضہ کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا اور میں نے ان سے اس حوالے سے خیریت بھی دریافت کیا۔
آج انکے انتقال پر پورآ علاقہ بیحد سوگوار ہے، مولانا موصوف نہایت اعلیٰ ظرف، فکر مند ،متفکر، ملنسار، خوش طبع اور حساس شخصیت کے مالک تھے. وہ ایک بہترین استاد، با صلاحیت مہتمم، بے مثال خطیب اور علمی میدان کے شہسوار تھے۔وہ بھاگلپور ضلع کے سنہولہ بلاک کے رہنے والے تھے اور گڈا، بھاگلپور اور بانکا میں کسی بھی طرح سے محتاج تعارف نہیں تھے. انکا یوں چلے یقیناً پورے علاقے کے لئے بڑا خسارہ ہے۔
یقینی طور پر موت ایک ایسی حقیقت ہے جو روز اول سے جاری ہے اور ہر روز ہمیں یہ پیغام دے جاتی ہے کہ موت برحق جو ہر جاندار کو آنی ہے. کسی کو بھی یہاں دوام نہیں. لیکن قبل از وقت کسی کا رخصت ہونا نہایت رنج و الم کا باعث بن جاتا ہے اور ان جانے والوں میں سے کچھ ایسی ہستیاں بھی ہوتی ہیں جن کے گزر جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے اور جنکا چلا جانا بڑے پیمانے پر معاشرے کو متاثر کرتی ہے، جن کے رخصت ہو جانے سے پورا معاشرہ اور اہل علاقہ سوگوار ہو جاتا ہے۔مولانا زاہد حسین قاسمی رح ایسی ہی چند ہستیوں میں سے تھے۔
مولانا نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہندوستان کے مشہور شہر وشاکھا پٹنم میں درس و تدریس میں گزار دیا لیکن انہیں اپنے علاقے کی فکر ہوئی اور وہ اپنی ماٹی اور اپنے معاشرے کی خدمت اور اور اپنوں کو سنوارنے کی غرض سے گزشتہ پانچ سال سے بھی زیادہ عرصہ سے مشہور تعلیمی درسگاہ جامعہ روضۃ العلوم میں بطور صدر مدرس اپنی خدمات پیش کر رہے تھے. انہوں نے جامعہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا اور مدرسہ حمیدہ انوار العلوم ہنوارہ گڈا میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔
مولانا مرحوم اپنی حیات میں بڑی تندہی کے ساتھ دینی اور علمی خدمات میں مصروف رہے۔ مولانا مرحوم قدرت بیان اور مؤثر اسلوب کی وجہ سے میدان خطابت میں بھی نمایاں تھے اور علمی و فکری اور عملی روایتوں کے امین تھے۔
اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…